سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(686) نماز جمعہ ہر نیک وبد کے ساتھ واجب ہے

  • 16950
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 847

سوال

(686) نماز جمعہ ہر نیک وبد کے ساتھ واجب ہے
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ان لو گو ں کے با ر ے میں کیا حکم ہے جو جمعہ نہیں پڑ ھتے اور کہتے ہیں کہ جمعہ کے لئے ضرو ری ہے کہ اسے کسی امام عادل ہی کے پیچھے ادا کیا جا ئے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ سبحا نہ و تعا لیٰ نے مسلما نو ں پر نماز جمعہ ادا کر نا وا جب قرار دے دیا ہے جب کہ وہ ایک جگہ کو سکو نت پز یر ہو ں خو اہ ان کی یہ سکو نت بڑ ے شہرو ں میں ہو یا چھو ٹے دیہا تو ں میں لیکن اہل علم کا اس تعدا د کے با ر ے میں اختلا ف ہے جو نماز جمعہ کے لئے شرط ہے اور اس کے با ر ے میں بہت سے اقوا ل ہیں اور ان میں سے بہت سے را جح قول یہ ہے کہ جب نماز یو ں کی تعدا د تین یا تین سے زیا دہ ہو تو جمعہ ادا کیا جا ئے نماز یو ں کی تعداد کے اس سے زیا دہ ہو نے کے با ر ے میں کوئی شر ط نہیں ہے اور اس پر بھی اجما ع ہے کہ یہ بھی جمعہ کے لئے شرط نہیں ہے کہ امام عا دل اور معصو م کی اقتدا ء میں ادا کیا جا ئے بلکہ وا جب یہ ہے کہ ہر نیک و بد کے سا تھ ادا کیا جا ئے بشر طیکہ وہ مسلما ن ہو اور اس کا گنا ہ ایسا نہ ہو جو اسے دا ئرہ اسلام ہی سے خا ر ج کر دینے وا لا ہو تو اس سے معلو م ہو ا کہ کچھ لو گو ں کا نماز جمعہ اس لئے ادا نہ کر نا کہ امام عادل و معصو م نہیں ہے یہ بد عت ہے اور ایک ایسی شر ط ہے کہ شر یعت مطہر ہ میں جس کا قطعاً کو ئی ثبو ت نہیں ہے اسی طرح بعض اہل علم جو یہ کہتے ہیں کہ نماز جمعہ کو صر ف بڑے بڑے شہروں میں ادا کیا جائے اور چھو ٹے دیہا تو ں میں نہ ادا کیا جا ئے تو یہ قو ل بھی سخت ضعیف ہے اور شریعت مطہرہ میں اس کی بھی قطعاً کو ئی دلیل نہیں ہے اسے امیر المو منین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسو ب کیا جا تا ہے لیکن آپ سے بھی یہ قو ل صحیح سند کے سا تھ ثا بت نہیں ہے مدینہ منو رہ میں سب سے پہلے ہجرت کر کے آنے وا لے مسلما نو ں نے یہا ں نماز جمعہ ادا کر نے کا اہتمام کیا حالا نکہ ان دنو ں مد ینہ ایک بڑا شہر نہیں بلکہ ایک بستی شمار ہو تا تھا اور پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  یہا ں تشر یف لا ئے تو آپ نے بھی جمعہ کا اہتما م فر ما یا اور تا حیات یہا ں با قا عد گی سے نماز جمعہ ادا فرماتے رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبا ر ک میں بحر ین کی ایک بستی جوا لیٰ میں بھی جمعہ ادا کیا جا تا تھا اور آپ نے کبھی اس سے منع نہیں فرما یا تھا خلا صہ کلام یہ ہے کہ شہر ہو ں یا دیہا ت نماز جمعہ ادا کر نا وا جب ہے تا کہ کتاب وسنت کے شر عی دلا ئل پر عمل ہو سکے وہ عظیم مصلحتیں حا صل ہو سکیں جو نماز ادا کر نے سے مقصود ہیں جن میں سے ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ لو گو ں کو خیر و بھلا ئی کے لئے جمع کیا جا ئے اور وہ و عظ و نصیحت کی جائے اور تعلیم دی جا ئے جو ان کے لئے منعفت بخش ہو آپس میں با ہمی تعا رف پو اور نیکی و تقوی کے کا مو ں میں ایک دو سرے کے سا تھ تعاون بھی ہو علا و ہ ازیں اس عبا دت کے ادا کر نے میں اور بھی بہت بڑی بڑ ی مصلحتیں ہیں ۔(شیخ ابن با ز رحمۃ اللہ علیہ )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ :جلد1

صفحہ نمبر 537

محدث فتویٰ

تبصرے