سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(369)جادو گر کے پاس جانا

  • 16845
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1108

سوال

(369)جادو گر کے پاس جانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کچھ افراد ’’مرابطین‘‘ کہلاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں علم غیب حاصل ہے۔ ان لوگوں کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ اور جو ان کے پاس جائے‘ یا ان کے بارے میں خاموش رہے (تردید نہ کرے) ا س کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

علم غیب اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے۔ جو انسان غیب دانی کا دعویٰ کرتاہے‘ اس نے اللہ کی خصوصی صفت سے متصف ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور اس طرح خود کو اللہ کا شریک قرار دیا ہے۔ بسا اوقات اللہ تعالیٰ اپنے کسی نبی کو جس قدر چاہتا ہے غیب کی بات بتا دیتاہے۔ اس کا رشاد ہے:

﴿وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ... ٥٩﴾...الأنعام

’’غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں‘ انہیں صرف وہی جانتاہے۔‘‘

نیز ارشاد عالی ہے:

 ﴿قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ... ٦٥﴾...النمل

’’(اے پیغمبر!) فرمادیجئے کہ اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی بھی غیب نہیں جانتا۔‘‘

﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ﴿٢٦﴾ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا ﴿٢٧﴾...الجن

’’ وہ غیب جاننے والا ہے‘ پس وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا‘ مگر جس رسول کو (کچھ بتانا) پسند کرے تو اس (تک پہننے والے پیغام) کے آگے پیچھے نگران روانہ کرتاہے۔‘‘

ان آیات سے معلوم ہوا کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی غیب جانتا ہے‘ اس کی مخلوق نہیں۔ پھر اس میں سے ان رسولوں کو مستثنیٰ کردیا جن کو اس نے پسند فرمایا اور انہیں وحی کے ذریعے غیب کی جو باتیں چاہیں بتادیں اور اس چیز کو ان کا معجزہ اور ان کی نبوت کی سچی دلیل بنادیا۔ نجومی یا اس قسم کے دوسرے لوگ مثلاً جو کنکری پھینک کر‘ کتابن کھول کر‘ یاپرندہ اڑا کر غیب کا باتیں معلوم کرلینے کا دعوی کرتے ہیں اللہ کے پسنددیدہ رسول نہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں غیب میں سے کوئی بات بتائے۔ یہ افراد تو اٹکل اور جھوٹ کی وجہ سے اللہ پر جھوٹ باندھنے والے اور اللہ کے منکر ہیں۔

اس سے معلوم ہوا کہ ان لوگو ں کے پاس (غیب کی کوئی بات پوچھنے کے لئے) جانا حرام ہے‘ وہ کافر ہیں۔ ان کے بارے میں اور ان کے پاس جانے والوں کے بارے میں خاموشی اختیار کرنا جائز نہیں بلکہ ادائے امانت‘ برائت ذمہ اور امت کی خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ سب لوگوں کے سامنے سچی بات کھول کر بیا ن کردی جائے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے