اس مسئلے میں قدرے تفصیل ہے۔اور وہ یہ کہ اگر اسے مؤذن آہستہ آواز میں کہتا ہے تو یہ اذان دینے والے اور سننے والے دونوں کے لئے شرعی طور پر جائز ہے۔کیونکہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:
''جب تم مؤذن کو سنو تو اسی طرح کہو جس طرح وہ کہتا ہے پھر مجھ پر درود بھیجو'جس نے مجھ پر ایک بار درود بھیجا اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔پھر میرے لئے اللہ تعالیٰ سے وسیلے کا سوال کرو۔ وسیلہ جنت میں ایک (ایسا بلند وبالا اور ارفع واعلیٰ) مقام ہے۔جس پر بندگان الٰہی میں سے صرف ایک انسان ہی فائز ہوگا۔اور امید ہے کہ یہ شرف مجھے حاصل ہوگا۔جس شخص نے میرے لئے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ کی دعا ء کی اس کے لئے میری شفاعت حلال ہوجائےگی۔''
اور حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''جو شخص اذان سن کر یہ کہے« اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة آت محمدا الوسيلة والفضيلة وابعثه مقاما محمودا الذي وعدته، حلت له شفاعتي يوم القيامة» اسے قیامت کے دن میری شفاعت ملے گی۔''
(ترجمہ دعا۔''اے اللہ ! اس دعوت کامل اور کھڑی ہونے والی نماز کے مالک تو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو وسیلہ اور فضیلت عطا فرمادے۔اور ان کو اس مقام محمود پر پہنچا دے جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے۔'')
اور اگر مؤذن ان الفاظ کو اذان ہی کی طرح بلند آواذ سے کہتا ہے تو یہ بدعت ہے کیونکہ اس سے یہ وہم ہوتا ہے کہ شاید یہ بھی اذان کا حصہ ہے۔اور اذان میں اپنی طرف سے اضافہ جائز نہیں۔اذان کا آخری کلمہ''لا الٰه الا اللہ'' ہے۔اس میں اضافہ جائز نہیں۔اگر یہ جائز ہوتا تو سلف صالح سبقت کا مظاہرہ کرتے بلکہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود اُمت کو یہ سکھاتے اور اس کا حکم فرماتے اور یاد رہے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے؛
(صحیح مسلم کتاب الاقضیۃ باب نقض الاحکام الباطلۃ ۔۔۔ح :1718۔وصحیح بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ باب رقم :20)
‘‘جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہماراامر نہیں ہے تو وہ مردود ہے’’
اللہ سبحانہ سے دعا ہے کہ وہ ہماری آپ کی اور سب بھایئوں کی دینی سمجھ بوجھ میں اضافہ فرمائے اور ہم سب کو محض اپنے فضل وکرم سے دین میں ثابت قدمی سے نوازے ۔انہ سمیع قریب ۔(شیخ ابن بازؒ)