سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(346) کیا تکبیر کے بعد دعاء ثابت ہے

  • 16296
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 833

سوال

(346) کیا تکبیر کے بعد دعاء ثابت ہے
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نماز جمعہ کے بعد امام صاحب نے فرمایا کہ مؤذن اقامت کو مکمل پڑھ لے تو تم کوئی ایسی دعا نہ پڑھو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو۔کتاب وسنت میں وار نہ ہو۔اور جب مؤذن اقامت میں اللہ کازک کرے تو تم بھی اللہ کا زکرکرو اور پھر امام کے کہنے تک خاموش رہو آج ہم امام صاحب کی ان باتوں کے متعلق آپس میں گفتگو کررہے ہیں۔ار امید ہے کہ آپ اس سلسلے میں جلد راہنمائی فرمایئں گے تاکہ ہمیں اطمینان نصیب ہو؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سنت یہ ہے کہ اقامت سننے والا بھی وہی کلمات کہے جواقامت کہنے والا کہتا ہے۔ کیونکہ یہ ایک طرح سے دوسری آذان ہے۔اس کا بھی آذان کی طرح جواب دینا چاہیے۔ اور تکبیرکہنے والا جب(حی علی الصلواۃ) اور (حی علی الفلاح) کہے تو سننے والے کو اس کے جواب میں کہنا چاہیے(لاحول ولا قوۃ الاباللہ))تکبیرکہنے والاجب( قد قامت الصلاۃ) کہے تو اس کے جواب میں (قد قامت الصلواۃ ہی کہنا چاہیے اور (اقامھا اللہ وادامھا ) نہیں کہناچاہیے کیونکہ جس حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں وہ ضعیف ہے۔ اور صحیح حدیث سے یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:

«اذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما يقول» (صحيح بخاري)

''جب تم مؤذن کو سنو تو اس طرح کہو جس طرح وہ کہتا ہے۔''

یہ ارشاد اذان اور اقامت دونوں کے لئے ہے کیونکہ ان دونوں میں سے ہر ایک کو اذان کہا جاتا ہے۔تکبیر کہنے والا جب (لا الہ الا اللہ) کہے تو اس کے بعدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پردرود شریف پڑھنا چاہیے اور پھر یہ دعا:

«اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلوة القائمة آٰت محمداً الوسيلة والفضيلة وابعثه مقاما محمودا الذي وعدته حلت له شفاعتي يوم القيامة »(صحيح بخاري...ح:٦١٤)
 پڑھے جس طرح آذان کے بعد درودشریف اور یہ دعاء پڑھی جاتی ہے اس کے علاوہ اقامت اور تکبیر تحریمہ کے درمیان کوئی زکر یا دعاء نہیں جس کا پڑھنا کسی صحیح حدیث سے ثابت ہو۔وباللہ التوفیق (وصلی اللہ علی نبینا محمد وآلہ وصحبہ وسلم))(فتویٰ کمیٹی)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ :جلد1

صفحہ نمبر 330

محدث فتویٰ

تبصرے