السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مذی اور ودی کی نجاست میں اختلاف ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مذی اورودی کی نجاست میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ ( هذا فى أتذكروأعلم واحفظ)سب کےنزدیک کپڑے یابدن کےجس حصے میں بھی لگ جائیں ان کادھونا ضروری ہوگا ۔ ہاں حنفیہ اس بات کےبھی قائل ہیں کہ پیشاب کی طرح (مذی اورودی کےخروج کی صورت میں بھی ) استنجاء بالحجر کافی ہوگا ۔ اما م احمد سےبھی ایک روایت یاقول اسی کےموافق مروی ہےاورامام نووی نےبھی شرح مسلم کےعلاوہ اپنی کتابوں میں اسی قول کی تصحیح کی ہے۔
مذی اورودی کی نجاست پراتفاق اوراس میں عدم اختلاف کی وجہ : یہ ہےکہ منی کےبارے میں اختلاف کی اصل بنیاد ہےوہ ان دونوں کےبارے میں کلی طورپر مفقود ومعدوم ہے۔
یہ معلوم ہےکہ حنفیہ وحنابلہ کےنزدیک قلیل نجاست غلیظہ معفو عنہ ہے،اورشافعیہ کےنزدیک کثیر وقلیل دونوں کا کلی قلع وقمع ضروری ہےاورذرہ بھربھی معفوعنہ نہیں ہے۔یہ بھی معلوم ہےکہ حدیث سےکپڑے میں لگی ہوئی منی یابس بلکہ رطب کابھی فرک وحت کافی ثابت ہےاور یہ ظاہر ہےکہ فرک وقرص وحت سےمنی کاکلی ازالہ ہرکز نہیں ہوسکتا ،منی کےکچھ اجزاء ضرور کپڑے میں رہ جاتےہیں ۔اب شافعیہ کےلیے بجز اس کےاورکوئی چارہ نہیں رہا کہ منی کوپاک کہیں بخلاف حنفیہ وحنابلہ کےکہ وہ یہ کہہ کر چھٹکارا حاصل کرلیں گےکہ باقی منی مقدار قلیل ویسیر ہےاور وہ مفو عنہ ہے اوریہ منی کاطہارت کومستلزم نہیں ہےجس طرح نعل میں تریاخشک لگی ہوئی نجاست کےازالہ کےلیے نعل کازمیں پرخوب رگڑدینا کافی ہے اوریہ لگنے والی گندگی اورغلاظت کی طہارت کو مستلزم نہیں ہےاورنہ ہی کوئی اس کاقائل ہے۔زیادہ سےزیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ منی سے کپڑے کی تطہیر اورغلاظت سے جوتی کی تطہیر کےمعاملہ میں شریعت نےآسانی رکھی ہےاوربس۔اور ا س قسم کی تفصیل مذی اورودی کے بارے میں کہیں بھی نہیں آئی ہےبلکہ مذی کےبارے میں غسل کےسوااورکچھ آیا ہی نہیں ہےپھر مذی اورودی دونوں اپنے قوام میں بول کے زیادہ قریب ہیں اس لیے ان سب کاحکم ایک ہے۔اثر مسئول عنہ سعید بن مسیّب کاہے زہری کانہیں ہے، اوربخاری میں نہیں ہےبلکہ موطا میں ہے،اورمحمول ہے دل سےوسوسہ کےرفع میں مبالغہ پر۔حقیقت پرمحمول نہیں ہے۔یامحمول ہےاس آدمی پرجو سلس المذی یاسلس الودی کی بیماری کی وجہ سے معذور ہے۔وهذا على مذهب مالك فقط للائمة الثلاثة والله اعلم.
عبيدالله رحمانى (مكاتيب حضرت شيخ الحديث مباركپوری بنام مولانا عبدالسلام رحمانی ص: 67؍ 68؍69)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب