سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(118) اذان سے پہلے کے الفاظ جو بنی نجار کی عورت سے مروی ہیں.؟

  • 1574
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1192

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سنن ابو داود میں  بَابُ الْأَذَانِ فَوْقَ الْمَنَارَۃِ  کے تحت بنی نجار کی ایک عورت سے جو حدیث مروی ہے جس میں اذان سے قبل سیدنا حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے مندرجہ ذیل الفاظ یا دعا پڑھنا ثابت ہے۔ «اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَحْمَدُکَ وَاسْتَعِیْنُکَ عَلٰی قُرَیْشٍ اَنْ یُقِیْمُوْادِیْنَکَ ثُمَّ یُؤَذِّنُ» ’’اے اللہ میں تیری تعریف کرتا ہوں اور قریش پر تجھ سے مدد مانگتا ہوں تاکہ وہ تیرے دین کو قائم کریں پھر وہ اذان دیتا‘‘

اور پھر راویۃ حدیث قسم کھا کر بیان کرتی ہے بلاناغہ سیدنا حضرت بلال رضی اللہ عنہ یہ الفاظ کہا کرتے تھے۔

آپ سے مؤدبانہ گذارش ہے کہ راقم ناچیز کو تحقیق کی ضرورت ہے اس لیے بغور نظر توجہ فرما کر تحقیقی جواب سے نوازیں کیونکہ بریلوی بدعتی اس روایت سے اذان سے قبل الصلاۃ والسلام کہنا ثابت کرتے ہیں(1)؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

سنن ابی داود کے باب الاذان فوق المنارۃ سے آپ نے ایک روایت نقل فرما کر اس کے متعلق پوچھا ہے تو اس سلسلہ میں گذارش ہے کہ بریلوی لوگوں کا اس روایت سے اذان سے قبل اپنے مخصوص درود ’’الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اﷲ‘‘ الخ پر استدلال درست نہیں ۔

اولاً تو اس لیے کہ اس روایت کی سند کمزور ہے اور اس کمزوری کی دو وجہیں ہیں ۔

پہلی وجہ :اس کی سند میں احمد بن محمد بن ایوب نامی ایک راوی ہیں جن کے متعلق یعقوب بن شیبہ کہتے ہیں ’’ لَیْسَ مِنْ أَصْحَابِ الْحَدِیْثِ وَاِنَّمَا کَانَ ورَّاقًا‘‘(تہذیب التہذیب ۱/۷۱)اور ابو احمد حاکم فرماتے ہیں ’’ لَیْسَ بِالْقَوِی عِنْدَہُمْ‘‘(تہذیب التہذیب ۷۱/۱)   نیز یحییٰ بن معین کہتے ہیں ’’ ہُوَ کَذَّابٌ‘‘(میزان الاعتدال ۱۳۳/۱ ۔ تہذیب التہذیب ۷۱/۱)

دوسری وجہ : اس کی سند میں محمد بن اسحاق ہیں جن کے متعلق حافظ ابن حجر لکھتے ہیں۔ ’’ إِمَامُ الْمَغَازِیْ صَدُوْقٌ یُدَلِّسُ وَرُمِیَ بِالتَّشَیُّعِ وَالْقَدْرِ‘‘(تقریب التہذیب ۲۹۰)اصول حدیث کی کتابوں میں لکھا ہے مدلس راوی جب تک اپنے شیخ سے سماع کی تصریح نہ کرے تب تک اس کی روایت قابل قبول نہیں اور مندرجہ بالا روایت محمد بن اسحاق نے بصیغہ ’’عن‘‘ بیان کی ہے اپنے سماع کی تصریح نہیں فرمائی۔ یہ تو محمد بن اسحاق کے متعلق صحیح موقف ہے باقی حنفی لوگ محمد بن اسحاق کے بارے میں کیا کچھ کہتے ہیں اس سلسلہ میں احسن الکلام کا متعلقہ مقام دیکھیں احسن الکلام کا حوالہ اس لیے دیا ہے کہ فاتحہ خلف الامام کے موضوع پر بریلوی لوگ بھی عموماً اسی کتاب پر اعتماد کرتے ہیں ۔

ایک شبہ اور اس کا ازالہ : احمد بن محمد بن ایوب کو بعض محدثین نے ثقہ بھی کہا ہے مگر اس پر جرح کرنے والوں کی جرح مقدم ہے ایک تو اس لیے کہ اس میں ایک زائد چیز کی نشاندہی کی گئی ہے دوم اس لیے کہ جرح اس مقام پر مفسر مبین السبب ہے لہٰذا اس مقام پر جرح کو ترجیح حاصل ہے تو ان دو  وجوہ کے باعث یہ روایت قابل قبول نہیں اور ابوداود ، منذری وغیرہ کے سکوت کو اس روایت کی صحت کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا ۔

ثانیاً : اس لیے کہ اس روایت کا مرفوع ہونا معلوم نہیں کیونکہ بنو نجار کی اس عورت کے صحابیہ ہونے سے لازم نہیں آتا ، کہ وہ صرف رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کی چیز ہی بیان کریں کیونکہ صحابہ بہت دفعہ رسول اللہ ﷺ کے بعد کی چیزیں بھی بیان کر دیتے ہیں بالکل اسی طرح بلال رضی اللہ عنہ کے موذن وصحابی رسول ﷺ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کے تمام کام رسول اللہﷺ کے عہد مبارک کے ہوں ۔

ثالثاً : اس لیے کہ اس میں اذان سے قبل تعوذ ودرود کا تو سرے سے نام ونشان ہی نہیں نہ ہی درود ابراہیمی کا اور نہ ہی درود بریلوی کا لہٰذا اس روایت سے بریلویوں کا استدلال نادرست ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب


(1)ملاحظہ ہو: دلائل البرکات ص ۴۰ مصنف قاری محمد نواز صدیقی بریلوی چکوال

احکام و مسائل

نماز کا بیان ج1ص 117

محدث فتویٰ

 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ