سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(116) تہجد اور سحری کی اذان

  • 1572
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 1756

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہماری جماعت کے لوگ بعض جگہ سحری کی اذان کہتے ہیں کئی لوگ اس اذان کو تہجد کی اذان کہتے ہیں کیا یہ اذان تہجد کے لیے دی جاتی ہے یا لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے کہی جاتی تھی کہ ابھی سحری کا وقت ختم ہونے والا ہے کیونکہ حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایک اذان ختم ہوئی تو جلد ہی دوسری اذان ہوتی تھی ہمارے ہاں تو گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ سحری کی اذان پہلے کہی جاتی ہے اور پھر صبح کی اذان ہوتی ہے ۔ وضاحت فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

فجر سے پہلے جو اذان کہی جاتی ہے اس کا نام کوئی تو سحری کی اذان رکھ لیتا ہے اور کوئی تہجد کی اذان جہاں تک مجھے معلوم ہے حدیث شریف میں اس کا کوئی خاص نام وارد نہیں ہوا البتہ صحیحین اور دیگر کتب حدیث میں ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا : بلال رضی اللہ عنہ رات کو اذان کہتا ہے الخ پھر اس اذان کی غرض بیان کرتے ہوئے رسول اللہﷺ نے فرمایا : تاکہ وہ تمہارے سونے والے کو جگائے اور تمہارے قیام کرنے والے کو لوٹائے …(صحیح بخاری۔ الاذان۔ باب الأذان قبل الفجر)الخ ۔

صحیحین اور دیگر کتب حدیث میں موجود عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک مؤذن کے اترنے اور دوسرے کے چڑھنے والی بات کا وہ مقصود نہیں جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس میں آپﷺ کا بیان ہے بلال رات کو اذان کہتا ہے پس تم کھائو اور پیو حتی کہ ابن ام مکتوم اذان کہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ابن ام مکتوم نابینے تھے اذان نہ کہتے جہاں تک کہ ان سے کہا جاتا آپ نے صبح کر دی آپ نے صبح کر دی۔

تو رسول اللہﷺ کے اس فرمان اور عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کے اس بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں اذانوں کے درمیان اترنے چڑھنے کے وقت سے زیادہ وقفہ ہوتا تھا باقی اس وقفے کی تحدید منٹوں میں کہیں نہیں آئی ۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

نماز کا بیان ج1ص 115

محدث فتویٰ

 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ