سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(201) اگر عقد نکاح کے وقت حقیقی نکاح کی نیت نہ ہو

  • 15719
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1470

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے ایک لڑکی سے کسی فائدے کے لیے نکاح کیا تھا قانونی اعتبار سے تو یہ شادی صحیح تھی کیونکہ ہم نے یہ شادی باقاعدہ گواہوں کی موجودگی لڑکی کے والدین اور اپنے والدین کی موجودگی میں اندراج کرائی تھی لیکن میری نیت شادی کی نہیں تھی بلکہ نیت یہ تھی کہ ہم قانون کے سامنے یہ ظاہر کریں کہ ہم شادی شدہ ہیں عقدنکاح کو پانچ برس گزرنے کے باوجود ہم نے ازدواجی تعلقات قائم نہیں کیے اور اب ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم علیحدہ نہ ہوں اور نہ ہی میں اسے طلاق دوں بلکہ اب ہم حقیقی خاوند اور بیوی بن کر رہنا چاہتے ہیں اب ہماری نیت شادی کی ہے تو سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ آیا ہمیں تجدید نکاح کرنا ہو گا کہ نہیں ؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

منفعت کے لیے شادی کی نیت کچھ حیثیت نہیں رکھتی بلکہ جب مکمل شروط کے ساتھ ایجاب و قبول ہو جائے تو نکاح واجب ہو جاتا ہے خواہ عقدنکاح کرنے والے طرفین یا ان میں سے کوئی ایک طرف یہ نکاح بطور کھیل و مذاق ہی رہاکرہو۔احناف حنابلہ کا مسلک یہی ہے اور مالکیہ کے ہاں بھی یہی معتبرہے اور شوافع بھی اسےہی صحیح قرار دیتے ہیں۔( مزید تفصیل کے لیے دیکھئے فتح القدیر 19903۔المغنی لابن قدامۃ 61/7کشاف،القناع،40/5۔حاشیہ،الدسوفی،221/2۔نہایۃالمحتاج 209/6۔روضۃ الطالبین 54/4)

ان سب حضرات کی دلیل رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا مندرجہ فرمان ہے۔

"ثَلَاثٌ جِدُّهُنَّ جِدٌّ وَهَزْلُهُنَّ جِدٌّ : النِّكَاحُ ، وَالطَّلَاقُ ، وَالرَّجْعَةُ "

"تین باتیں ایسی ہیں جنہیں اگر سنجیدگی سے کہا جائے تو بھی پختہ ہیں اور اگر مذاق سے کہا جائے تو بھی سنجیدگی ہیں۔ایک نکاح دوسری طلاق اور تیسری رجوع۔"( حسن ارواء الغلیل 1826ابو داؤد 2194۔کتاب الطلاق علی الہزل ترمذی 1184۔ کتاب الطلاق واللعان باب ماجاء فی الجد والہزل فی الطلاق ابن ماجہ 2039۔کتاب الطلاق باب من طلق او نکح لاعباسعید منصور 1603۔طحاوی 18/3۔دارقطنی 257۔256/3۔مستدرک حاکم 198/2)

یعنی یہ تینوں کام اگر حقیقی طور پر کیے جائیں تو حقیقت ہوں گے۔ اور اگر یہ بطورمذاق کیے جائیں توبھی حقیقت ہی ہوں گے۔اور "ہزل "سے مراد یہ ہے کہ لفظ سے وہ یعنی مراد لیا جائے جس کے لیے لفظ بنایا نہیں گیا اور یہ اسی فعل پر منطبق ہوتا ہےجو آپ دونوں نے عقد نکاح میں کیا ہے کیونکہ آپ نے عقدنکاح کا اندراج تو کروایا لیکن شادی نہیں کرنا چاہتے تھے ۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں۔

عام علماء کے ہاں مذاق میں طلاق دینے والے کی طلاق بھی واقع ہو جا ئے گی اور اسی طرح اس کا نکاح بھی صحیح ہے جیسا کہ مرفوع حدیث کے متن میں بھی اس کا ذکر ہے صحابہ کرام اور تابعین رضوان اللہ عنھم اجمعین عظام کا مؤقف بھی یہی ہے۔

اور جمہور علماء کا بھی یہی قول ہے۔( الفتاوی الفقہیا الکبری 63/6)

حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں۔

مراسیل حسن میں ہے وہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے بیان کرتے ہیں کہ جس نے بطور کھیل نکاح کیا یا طلاق دی یا بطور کھیل غلام آزاد کیا تو یہ واقع ہوگیا۔

اور حضرت عمر بن خطاب  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ نے فرمایا : چار چیزیں ایسی ہیں کہ جب ان کے بارے میں بات کی جائے تو وہ جائز ہوتی ہیں طلاق آزاد کرنا نکاح اور نذرماننا۔

اور امیر المومنین کہتے ہیں ۔تین چیزیں ایسی ہیں جن میں کوئی مذاق اور کھیل نہیں طلاق غلام آزاد کرنا اور نکاح اور ابو درداء رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کابیان ہے۔

تین چیزوں میں کھیل بھی حقیقت پر مبنی ہے طلاق غلام آزاد کرنا اور نکاح اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کہتے ہیں۔ نکاح خواہ مذاق میں ہو یا حقیقت میں برابرہے(یعنی بہر صورت منعقدہوجاتا ہے) (مزید دیکھئے اعلام المؤقعین 100/3)

اس بنا پر آپ کے لیے دوبارہ نکاح کرنا ضروری نہیں بلکہ آپ دونوں پہلے نکاح پر ہی خاوند اور بیوی ہیں (واللہ اعلم)(شیخ محمد المنجد)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص267

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ