سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(13)کم عمر لڑکی سے نکاح کا حکم

  • 15455
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2803

سوال

(13)کم عمر لڑکی سے نکاح کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں چھبیس سالہ نوجوان ہوں اور ایک اچھے گھرانے کی لڑکی سے تعارف ہوا ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں اس سے منگنی کر لوں لیکن مشکل یہ ہے کہ لڑکی ابھی تک چھوٹی ہے اور اس کی عمر صرف تیرہ برس ہے، تو کیا اخلاقی طور پر اس اس کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے اور ا س سے شادی کی جا سکتی ہے؟ اور کیا دینی، معاشرتی اور قانونی طور پر ہماری عمر کا فرق قابل قبول ہو گا؟

فرض کریں اگر شادی ہو جاتی ہے تو یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ کنواری لڑکی سے توشادی پر اس کی  رضا مندی حاصل کی جاتی ہے لیکن ایک تیرہ برس کی لڑکی ایسا فیصلہ کرنے پر قادر ہو گی اور کیا اسلام اس طرح کی شادی کی اجازت دیتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ دونوں کے درمیان عمر کے اس فرق کے باوجود اس لڑکی سے شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں، اہم چیز یہ ہے کہ وہ لڑکی دین دار اور اچھے اخلاق کی مالک ہونی چاہیے۔ نکاح کے معاملے میں یہی چیز مطلوب ہے اور شریعت بھی اسی کا حکم دیتی ہے اور اسی سے رضامندی و موافقت اور ان شاء اللہ سعادتمندی کا حصول بھی ہو گا۔

چھوٹی بچی سے شادی کی صحت پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان دلالت کرتا ہے۔

﴿وَالّـٰـٔى يَئِسنَ مِنَ المَحيضِ مِن نِسائِكُم إِنِ ارتَبتُم فَعِدَّتُهُنَّ ثَلـٰثَةُ أَشهُرٍ وَالّـٰـٔى لَم يَحِضنَ ۚ وَأُولـٰتُ الأَحمالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعنَ حَملَهُنَّ ۚ وَمَن يَتَّقِ اللَّـهَ يَجعَل لَهُ مِن أَمرِهِ يُسرًا ﴿٤﴾...الطلاق

اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں ان کے معاملہ میں اگر تم لوگوں کو کوئی شک لاحق ہے تو (تمہیں معلوم ہو کہ) ان کی عدت تین مہینے ہے اور یہی حکم اُن کا ہے جنہیں ابھی حیض نہ آیا ہو اور حاملہ عورتوں کی عدت کی حد یہ ہے کہ اُن کا وضع حمل ہو جائے جو شخص اللہ سے ڈرے اُس کے معاملہ میں وہ سہولت پیدا کر دیتا ہے-

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جنہیں کم عمری کی بنا پر حیض نہیں آیا ان کی عدت تین ماہ مقرر کی ہے اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ عدت تو نکاح کے بعد طلاق کی وجہ سے ہوتی ہے؟ جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی شادی بھی ہو سکتی ہے اور پھر اسے طلاق بھی دی جا سکتی ہے۔

نیز نبی کریم ﷺ نے عائشہ ؓ سے چھ برس کی عمر میں شادی کی تھی اور جب وہ نو برس کی ہوئیں تو ان کی رخصتی ہوئی تھی اور نبی ﷺ اس وقت  پچاس برس سے متجاوز تھے۔

امام بخاری اور امام مسلم نے عائشہ ؓ سے بیان کیا ہے وہ کہتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے میرے ساتھ چھ برس کی عمر میں شادی کی اور مجھ سے نوبرس کی عمر میں بنا (یعنی ہم بستری) کی۔ (بخاري: 3894، كتاب المناقب: باب تزويج النبي عائشة وقدومها المدينة وبنائه بها، مسلم: 1422، كتاب النكاح: باب تزويج الأب البكر الصغيرة)

اور جس لڑکی کی عمر تیرہ برس ہو اس بات کا احتمال ہے کہ وہ تو بالغ بھی ہو چکی ہو، تو جب وہ بالغ ہے پھر علمائے کرام کا صحیح قول یہی ہے کہ شادی میں اس کی رضامندی شرط ہو گی کیونکہ نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کسی شوہر دیدہ کی شادی اس کے مشورے کےب غیر نہ کی جائے اور نہ ہی کسی کنواری  کی شادی اس کی اجازت کے بغیر کی جائے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! اس کی اجازت کیسے ہو گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ کہ وہ خاموش رہے۔‘‘

(بخاري: 5136، كتاب النكاح: باب لا ينكح الأب وغيره البكر والثيب إلا برضاها، أبوداؤد: 2094، ترمذي: 1109، نسائي: 8716، ابن ماجة: 1871، بيهقي: 120/7)

اور اگر وہ لڑکی بالغ نہیں ہوئی تو اس کے والد کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اس کی شادی کر دے اور اس کے لیے اس سے اجازت حاصل کرنی لازم نہیں ہو گی۔

امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’چھوٹی کنواری بچی کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں (یعنی اس کا والد اس کی شادی کرنے کا اختیار رکھتا ہے خواہ وہ اسے ناپسند ہی کرتی ہو۔‘‘

امام ابن منذر نے کہا ہے کہ

’’اہل علم میں سے جن کے متعلق بھی ہمیں علم ہے وہ سب اس بات پر متفق ہیں اور ان کا اجماع ہے کہ چھوٹی کنواری لڑکی کا  نکاح اس کا والد کر سکتا  ہے اور جب والد اپنی چھوٹی بچی کی اس کے کفو اور مناسب لڑکے سے شادی کر دے تو بچی کی ناپسندیدگی اور انکار کرنے کے باوجود والد کےلیے اس کی شادی کرنا جائز ہے۔‘‘

(المغني لابن قدامة: 398/9)

لیکن امام احمد رحمہ اللہ سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ جو لڑکی نو برس کی ہو جائے تو وہ بالغ لڑکی کے حکم میں ہو گی اور اس سے اجازت حاصل کرنا واجب ہے تو اس لیے اگر والد احتیاط سے کام لے اور اس سے اجازت حاصل کر لے تو یہ بہتر اور اچھا ہے۔

 (المغني لابن قدامة: 398/9-405)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

سلسله فتاوىٰ عرب علماء 4

صفحہ نمبر 51

محدث فتویٰ

تبصرے