کیا ایک بکری کی اس طرح بیع جائز ہے کہ مثلا بیس سال یا اس سے زیادہ مدت بعد دویا تین بکریاں دی جائیں؟
میں نے وہ مقالہ دیکھا ہے جسے ڈاکٹر ابراہیم بن عبداللہ ناصر نے ‘‘بینکوں کے بارے میں اسلامی شریعت کا موقف ’’کےزیر عنوان لکھا ہے اس مقالہ کے مطالعہ س معلوم ہواکہ انہوں نے پیچیدہ اسلوب،کمزوردلائل اورباطل شبہات کے ساتھ اس سود کو حلال قراردینے کی کوشش کی ہے ،جسے اللہ تعالی نے حرام قراردیا ہے لہذا مجھ پر یہ واجب ہے کہ میں یہ واضح کردوں کہ اس مقالہ کے مندرجات باطل ہیں اورکتاب وسنت اورعلماء امت کے اس اجماع کے خلاف ہیں کہ جس کی روسے سودی معاملات حرام ہیں۔میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ ان شبہات کو دورکردوں اس مقالہ نگارنے پیش کیاہے اوررباالفضل اوررباالنسیئہ کو حلال قراردینے کے لئے اس نے جن دلائل کا سہارالیا ہے ،وہ سب باطل ہیں۔مقالہ نگار کا خیا ل ہے کہ سود کی صرف ایک ہی صورت حرام ہے اوراس مراد وہ ہے جو رباالجاھلیۃ کے نام سے مشہور ہےاوراس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ جب قرض اداکرنے کا وقت آتا ہے تو قرض دینے والا تنگ دست مقروض سے یہ کہتاہے کہ تمہیں یا تو میرا قرض اداکرنا پڑے گا یا اس پر سود دینا پڑے گا۔ڈاکٹر ابراہیم کے نزدیک سود کی صورتوں میں سےصرف یہ ایک صورت حرام ہے اوراس کے سوا باقی سب صورتیں حلال ہیں جیسا کہ ان کے مقالہ کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے،میں ان شاء اللہ تعالی اس مسئلہ کو شافی انداز سے بیان کروں گا تاکہ حق واضح اورباطل نابود ہوجائے گا۔
والله المستعان وعليه التكلان’ولا حول ولا قوة الاباللهارشادباری تعالی ہے:
‘‘اورنیکی اورپرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مددکیا کرواورگناہ اورظلم کی باتوں میں مددنہ کیا کرو۔’’
نیز فرمایا:
‘‘اے ایمان والو!اپنے اقراروں(عہدوپیمان)کو پوراکرو۔’’
مزید فرمایا:
‘‘اے ایمان والو! جب تم آپس میں کسی میعاد معین کے لئے قرض کا معاملہ کرنے لگوتواس کو لکھ لیا کرواورلکھنے والے کو چاہئے کہ (کسی کا نقصان نہ کرے بلکہ)تمہارا آپس کا معاملہ انصاف سے لکھے اورلکھنے سے انکاربھی نہ کرے،جس طرح اللہ تعالی نے اسے سکھایا ہے پس اسے بھی لکھ دینا چاہئےاورجس کے ذمہ حق ہووہ (یعنی مقروض )لکھوائےاوراللہ تعالی سے ڈرے جو اس کا پروردگارہے اورحق میں سے کچھ کم نہ کرے(یعنی اس کے ذمہ جو قرض ہے وہ پورالکھوائے ،کم نہ لکھوائے۔۔۔۔۔)ہاں اگرسودادست بدست ہوجو تم آپس میں لیتے دیتے ہو،تواگر (ایسے معاملے کی)دستاویزنہ لکھو توتم پر کچھ گناہ نہیں اورجب خریدو فروخت کیا کرو توبھی گواہ بنالیا کرواورکاتب دستاویزاورگواہ(معاملہ کرنے والوں کا)کسی طرح نقصان نہ کریں۔’’
اورفرمایا:
‘‘مومنو!ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاوہاں اگرآپس کی رضا مندی سے تجارت کا لین دین ہو(اوراس سے مالی فائدہ حاصل ہوجائے تووہ جائز ہے ۔)’’
اورفرمایا:
‘‘اورجہاں تک ہوسکے ان کے(مقابلے )کے لئے مستعدرہو۔’’
اس مضمون کی اوربھی بہت سی آیات ہیں،جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کی اس طرف رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ ان امورمیں آپس میں تعاون کریں،جودین اوردنیا کے اعتبار سےان کے لئے منفعت بخش ہوں ،اللہ تعالی نے مسلمانوں کویہ بھی حکم دیا ہے کہ وہ نیکی وتقوی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کریں اورگناہ اورظلم کی باتوں میں تعاون نہ کریں ،اللہ سبحانہ وتعالی نے عہدوپیمان کے پوراکرنے کا بھی حکم دیا ہے،شرعی طریقے سے ثابت حقوق کے اداکرنے کا حکم دیا ہے ،باطل طریقے سے لوگوں کے مال کھانے سے منع کیا ہے دشمن کے مقابلہ کے لئے مقدوربھرتیاری کا حکم دیا ہے ،اللہ تعالی کے ان احکام پر عمل پیرا ہونے سے ہی مسلمانوں کی معاشی حالت درست ہوگی،ان کے مال ودولت ثمرآورہوں گے،منافع حاصل ہوں گےاورمسلمانوں کے لئے یہ ممکن ہوگا کہ وہ اپنی حاجتوں اورضرورتوں کو ایسےطریقوں سے پوراکرسکیں،جن کو اللہ تعالی نے جائز قراردیا ہے،اسی طرح اللہ تعالی نے مسلمانوں کو بہت سی آیات میں کذب،خیانت ،جھوٹی گواہی دینے ،سچی گواہی چھپانے ،باطل طریقے سے دوسروں کے مال کھانے اورانہیں حکام کی خدمت میں پیش کرنے سے منع کیا ہے تاکہ وہ حق کی بجائے ظالمانہ فیصلہ نہ کریں خصوصا اللہ تعالی نے امانت کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے اورامانت کے اداکرنے کے بارے میں حکم دیتے ہوئے فرمایا:
‘‘تحقیق اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو۔’’
اورفرمایا:
‘‘ہم نے(بار)امانت کو آسمانوں،زمین اورپہاڑوں پر پیش کیا تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کردیا اوراس سے ڈر گئے۔’’
اللہ تعالی نے امانت میں خیانت کرنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘اے ایمان والو!نہ تواللہ اوراس کے رسول کی امانت میں خیانت کرو اورنہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو اورتم (ان باتوں کو )جانتے ہو۔’’
اللہ تعالی نے اپنے مومن بندوں کی سورۃ ‘‘المومنون’’اورسورۃ‘‘المعارج’’ میں تعریف کرتے ہوئے فرمایاہے کہ وہ امانتوں اوروعدوں کو پوراکرتے ہیں۔
ارشادباری تعالی ہے:
‘‘اورجوامانتوں اوراقراروں کو ملحوظ رکھتے ہیں۔’’
جب مسلمان اس تعلیم وارشادکواپنالیں گے،آپس میں ایک دوسرےکواس کی تلقین کریں گےاوراسےصدق دل سےقبول کرلیں گےتواللہ تعالیٰ بھی ان کےحالات کی اصلاح فرمادےگا،ان کےاعمال اوران کےمال ودولت میں برکت فرمائےگا،انہیں ان کےمقاصدمیں کامیابی سےہمکنارکرےگااورانہیں دشمنوں کےمکروفریب اوران کی چالوں سےمحفوظ رکھےگا،چنانچہ ان باتوں کی اللہ تعالیٰ نےحسب ذیل ارشادات میں تلقین فرمائی ہے:
‘‘اےاہل ایمان!اللہ سےڈرتےرہواورراست بازوں کےساتھ رہو۔’’
اورفرمایا:
‘‘اےایمان والو!انصاف پرقا۴م رہواوراللہ کےلئےسچی گواہی دوخواہ(اس میں)تمہارایاتمہارےماں باپ اوررشتہ داروں کانقصان ہی ہو،اگرکوئی امیرہےیافقیرتواللہ ان کاخیرخواہ ہےپس تم خواہش نفس کےپیچھےچل کرعدل کونہ چھوڑدینا۔اگرتم نےکج بیانی کی یاپہلوتہی کی تو(جان رکھو)اللہ تمہارےسب کاموں سےواقف ہے۔’’
اورفرمایا:
‘‘اےایمان والو!اللہ کےلئےانصاف کی گواہی دینےکےلئےکھڑےہوجایاکرواورلوگوں کی دشمنی تم کواس بات پرآمادہ نہ کرےکہ انصاف چھوڑدو،انصاف کیاکروکہ یہی پرہیزگاری کی بات ہےاوراللہ سےڈرتےرہو،یقینااللہ تعالیٰ تمہارےسب اعمال سےخبردارہے۔’’
اورارشادگرامی ہے:
‘‘اورجہاں تک ہوسکےان کے(مقابلے)کےلئےمستعدرہو۔’’
اورفرمایا:
‘‘اےایمان والو!اپنےبچاؤکاسامان(ہتھیار)لےلیاکرو۔’’
اس مضمون کی آیات بےشمارہیں،یہ بات توتھی ڈاکٹرابراہیم کےپہلےمقدمہ کےبارےمیں اورباقی رہاان کادوسرااورتیسرامقدمہ اوریہ کہ‘‘بینکوں کےبغیراقتصادی قوت حاصل نہیں ہوسکتی اوربینک سودکےبغیرنہیں چل سکتے۔’’تویہ دونوں مقدمےباطل ہیں وہ شرعی دلائل جوہم نےقبل ازیں بیان کئےہیں نیزنبیﷺکےعہدسےلےکربینکوں کےوجودمیں آنےتک کامسلمانوں کاعمل ان دونوں مقدموں کےباطل ہونےپردلالت کرتاہے،چنانچہ گزشتہ صدیوں میں جن کی تعدادتیرہ سےبھی زیادہ ہےمسلمانوں کی اقتصادیات بینکوں کےوجوداورسودی کاروبارکےبغیرہی مستحکم تھی،ان کی ثروت ودولت بارآورتھی،معاملات درست تھے،انہوں نےشرعی احکام کی پابندی کرکےبہت سےمنافع حاصل کئےاوربےحدوحساب مال کمائے۔اللہ تعالیٰ نےمسلمانوں کوان کےدشمنوں پرفتح ونصرت عطافرمائی،انہوں نےدنیاکےاکثروبیشترعلاقےپرحکومت کی،بندگان الہٰی پراللہ تعالیٰ کی شریعت کےمطابق حکمرانی کی کہ اس دورمیں بینکوں کاوجودتھانہ سودی معاملات بلکہ مقالہ نگارجناب ابراہیم کی رائےکےبرعکس بینکوں کایہ سودی نظام مسلمانوں میں تفریق کاسبب بناہے،اس سےان کی اقتصادیات تباہ ہوگئی ہے،آپس میں حسدبغض پیداہوگیانیزاتفاق واتحادختم ہوگیاہےکیونکہ سودی معاملات کانتیجہ حسدوبغض،عداوت،برکت سےمحرومی اورسزاؤں کےاترنےکی صورت میں برآمدہوتاہے،ارشادباری تعالیٰ ہے:
‘‘اللہ تعالیٰ سودکومٹاتاہےاورصدقے(خیرات)کوبڑھاتاہے۔’’
کیونکہ سودکےسبب قرض کی رقم میں جودوگناچوگنااضافہ ہوجاتاہےوہ حسدوبغض اوردشمنی کاسبب بنتاہےاورپھراس کےسبب بزدلی وکم ہمتی پیداہوتی ہےمحنتوں اورمفیدمنصوبوں میں کمی آجاتی ہےکیونکہ سرمایہ دارکام کاج کرنے،مفیدمنصوبوں اورصنعت وزراعت میں سرمایہ لگانےکی بجائے،سودکےزریعےاپنےسرمایہ کوبڑھاناچاہتےہیں۔
اللہ تعالیٰ نےاپنےبندوں کےلئےکئی قسم کےمعاملات کوجائزقراردیاہےجن کےزریعےوہ منافع بھی کماسکتےہیں اوراپنی دولت کوبڑھابھی سکتےہیں،معاشرہ کےلئےمنفعت بخش کاموں میں تعاون کرسکتےہین اوربےروزگارلوگوں کوروزگاربھی فراہم کرسکتےہیں اورسود،گمراہی اورمختلف قسم کی ناپاک کمائی سےبھی بچ سکتےہیں،چنانچہ ان معاملات میں سےمضاربت اورشراکت کی وہ صورتیں ہیں جومعاشرہ کےلئےمفیدہیں نیزمضاربت ومشارکت کی بنیادپرقائم کی جانےوالی وہ فیکٹریاں ہیں جولوگوں کی ضرورت کےلئےاسلحہ،لباس،برتن اورکارپٹ(قالین)وغیرہ تیارکرتی ہیں۔اسی طرح زراعت کی کئی قسمیں ہیں،جن کوبروئےکارلاکرزمین سےفائدہ اٹھایاجاسکتاہے،اس سےمعاشرہ کےفقراءوغیرہ کوبھی فائدہ پہنچتاہے،اس سےہروہ شخص جس میں ادنیٰ سی بھی بصیرت ہویہ جان سکتاہےکہ سودی بینک مستحکم اقتصادیات اورمصالح عامہ کےخلاف ہیں۔آج ہمیں جوتباہی وبربادی،سستی ونامرادی،برکت سےمحرومی،دشمنوں کاغلبہ وتسلط،مختلف قسم کی سزائیں،بھیانک اورخوفناک نتائج نظرآرہےہیں،ان کاایک بڑاسبب سودبھی ہےہم اللہ تعالیٰ سےدعاکرتےہیں کہ وہ مسلمانوں کوان خرابیوں سےمحفوظ رکھےاورانہین بصیرت وحق پراستقامت عطافرمائے۔
ثانیا:ڈاکٹرابراہیم نےلکھاہےکہ‘‘ہماری معاشیات میں بینکنگ سسٹم کی وہ اہمیت ہےجوانسانی جسم مین دل کی اہمیت ہے۔’’
جواب نہیں یہ بات نہیں ہےبلکہ کہنایوں چاہئےکہ بینکنگ کایہ سسٹم ہمیں سودکی طرف دھکیلتاچلاجارہاہےحالانکہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہےجیساکہ گزشتہ ادوارمیں خصوصامسلمانوں کےسنہری دورمیں بینکوں اورسودی کاروبارکےبغیربھی ہماری معاشی حالت بہت مضبوط ومستحکم اورسودسےپاک تھی جیساکہ قبل ازیں ارشادکیاگیاہے،اس دورمیں اللہ تعالیٰ نےاپنےدین کی مددفرمائی،مسلمانوں کےکلمہ کوسربلندی عطاکی،آسمان سےان کےلئےرحمتوں کانزول ہوااورزمین نےان کےلئےبےحدوحساب رزق لگایاجوان کی ضرورتوں کےلئےکافی تھا،جس نے انہیں دوسروں سے بے نیاز کردیا،اوراسی طرح دشمن کے ساتھ جہاد کرناممکن ہوااورپھر حرام کی بجائے یہ رزق حلال ہی ان کی حاجتوں اورضرورتوں کے لئے کافی شافی تھا،جوشخص بھی نبی ﷺکے عہد مبارک سےلے کر سودی بینکوں کے وجود میں آنے تک کی اسلامی تاریخ کامطالعہ کرے گا وہ مذکورہ بالاحقائق کو یقینی طورپر معلوم کرلے گا اوریہ بھی جان لے گا کہ آج مسلمانوں اورغیر مسلموں کی جو اقتصادی حالت ابتر ہے اورخیروبرکت سے محروم ہیں تواس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کی شریعت سے منحرف ہوگئے ہیں،اللہ تعالی نے ان کے لئے جوواجب قراردیا تھا،اسےادانہیں کررہے اورباہمی معاملات کے بارے میں اس اسلوب کو اختیار نہیں کرتے جو اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لئے مقررفرمایا ہے،تواللہ تعالی کی شریعت کے مخالف اعمال کے سبب یہ آلام ومصائب میں گھرے ہوئے اورطرح طرح کی تباہیوں اوربربادیوں سے دوچار ہیں جیسا کہ ارشادباری تعالی ہے:
‘‘اورجو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے،سوتمہارے اپنے اعمال کی وجہ سے ہے اوروہ بہت سے گناہ تومعاف کردیتا ہے۔’’
اورفرمایا:
‘‘اگران بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اورپرہیز گاہوجاتے توہم ان پر آسمان اورزمین کی برکات(کےدروازے)کھول دیتے مگر انہوں نے توتکذیب کی ،سوان کے اعمال کی سزامیں ہم نے ان کو پکڑ لیا۔’’نیزفرمایا:
‘‘اوراگراہل کتاب ایمان لاتے اورپرہیز گاری اختیارکرتے توہم ان سے ان کے گناہ محو کردیتےاوران کو نعمت کے باغوں میں داخل کرتے اوراگر وہ تورات اورانجیل کو اورجو(اورکتابیں)ان کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوئیں ان کوقائم رکھتے (توان پر رزق کی بارش کی طرح برستا)البتہ وہ اپنے اوپر (آسمان)سے اورنیچے (زمین)سے کھاتے ۔’’
مزید فرمایا:
‘‘اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا،وہ اس کے لئے(رنج ومحن سے)مخلصی کی صورت پیدا کرےگا اوراس کو ایسی جگہ سے رزق دےگاجہاں سے(وہم و)گمان بھی نہ ہوگااورجواللہ پر بھروسہ رکھے گاتووہ اس کو کفایت کرےگا۔’’
اورفرمایا:
‘‘اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرے گاتواللہ تعالیٰ اس کے کام میں سہولت پیدا کردےگا۔’’
ثالثا: ابراہیم نے اپنے مقالہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ ‘‘اس سوال کا ہمیں اب تک جواب نہیں ملاکہ فائدہ کے لئےاقتصاری سرگرمیوں کو فقہاءاسلام کس نظر سے دیکھتے ہیں؟اگرفائدہ کے لئے قرض دیا جائے تو وہ ان کی نظر میں کیوں حرام ہے۔۔۔۔۔’’الخ۔
جواب یہاں سے لے کر انہوں نے اپنے مقالہ کے آخر تک جو ذکر کیا ہے اس کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ تمام فقہا ء علماء اسلام نے سود کا جائزہ لیا اوراسے حرام قراردیا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺکی صحیح احادیث سے سود کی حرمت ثابت ہے ،
رسول اللہ ﷺکی یہ احادیث مستفیض (مشہور)ہیں،ان میں کوئی ابہام بھی نہیں اوریہ قطعی طورپر صراحت کے ساتھ دلالت کناں ہیں کہ مال کے اسی جنس کے ساتھ اضافہ کی صورت میں خواہ یہ اضافہ کتنا ہوی کم کیوں نہ ہو ،صریحاسود ہے جو حرام ہے لیکن مقالہ نگار نے ۔۔۔اللہ تعالی اسے ہدایت عطافرمائے اوررشدوبھلائی سےنوازے۔۔۔۔ان تمام احادیث سے اعراض کیا ہے ،ان کی طرف قطعا التفات نہیں کیا اورقرآن کریم میں وارد مجمل ربا کے بارے میں بات کی ہےاورپورازورصرف کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سود کی صرف ایک ہی صورت ہے اوروہ یہ کہ جب تنگ دست مقروض اپنے قرض کے اداکرنے سے عاجز وقاصر ہوتو قرض دینے والے سے معین فائدہ کی شرط کی بنیاد پر مزیدمہلت لے لے ،یہ ان کی تحقیق کا خلاصہ ہے اوراس کے علاوہ سود کی دیگر تمام صورتوں کو اس بنیاد پر حلال قراردینے کی کوشش کی ہے کہ ان کے خیال میں لوگوں کو ان تمام صورتوں میں لین دین کرنے کی ضرورت ہے اوربندوں کی مصلحتیں ان سودی معاملات کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوسکتیں جن پر بینکنگ کے نظام کا انحصار ہے ۔مقالہ نگار نے اپنے مئوقف کی تائید میں موفق ابن قدامہ،شیخ الاسلام ابن تیمیہ اورعلامہ ابن قیم کے مجمل کلام کے بعض حوالوں سے بھی استدلال کرتے ہوئےکہا ہے کہ شرع شریف ان مصلحتوں سے منع نہیں کرتی جو کسی کو نقصان پہنچائے بغیر مسلمانوں کے لئے منفعت بخش ہوں بشرطیکہ وہ شریعت مطہرہ کے نصوص کے خلاف نہ ہوں۔ان ائمہ کرام کا یہ کلام مقالہ نگا رکے موقف کی دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ ائمہ کرام اوردیگر حضرات نے اس انداز سے جن مصالح کی بابت بات کی ہے تواس سے مراد وہ مصالح ہیں،جن کی شریعت میں ممانعت نہ ہو یعنی یہ بات ایسے اجتہادی مسائل کے بارے میں ہے جن کے متعلق کوئی ایسی نص نہ ہو جس سے حکم شریعت کی وضاحت ملتی ہو لیکن اس مسئلہ کے بارے میں یہ صورت حال نہیں ہے کیونکہ نبیﷺکی بہت سی صحیح احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ سودکی دونوں صورتیں رباالفضل اوررباالنسيئه حرام ہیں۔بعض اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ رباالفضل کی حرمت ،تحریم وسائل کے باب سے ہے کیونکہ کوئی عقل مند بھی کسی چیز کو اسی کی جنس کے ساتھ دست بدست اضافہ کی صورت میں نہیں بیچتا کیونکہ اضافہ توصر ف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کہ معاوضہ میں دی جانے والی چیز کو تاخیر سےاداکیا جائے یا دونوں میں سے ایک دوسری زیادہ قیمتی ہو۔صحابہ کرام کے لئے رضی اللہ عنہم نے جب ردی کھجورکے دوصاع کو نفیس کھجور کے ایک صاع کے بدلہ میں بیچااورنبی کریمﷺکو بتایاتوآپؐ نے فرمایا‘‘اوہ!یہ توخالص سود ہے ،یہ توخالص سود ہے اس طرح نہ کرو۔’’(متفق علیہ)اورصحیحین میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا‘‘سونے کو سونے کے ساتھ نہ بیچوالایہ کہ وہ برابر ہواوربعض کو بعض سے کم یا زیادہ نہ کرواورغائب کو حاضر کے ساتھ نہ بیچو۔’’
صحیح مسلم میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا‘‘سوناسونے کےبدلے،چاندی چاندی کے بدلے ،گندم گندم کے بدلے ،جوجوکے بدلے کھجورکھجورکے بدلے اورنمک نمک کے بدلے جب کہ یہ اشیاءایک جیسی ہوں ،برابر ہوں اوردست بدست ہوں اوراگر اصناف مختلف ہوں تو پھر جس طرح چاہو بیچوجب کہ وہ دست بدست ہوں۔’’اس مضمون کی بہت سی احادیث صحیحین اوردیگر کتب موجود ہیں۔
حدیث اسامہ نم زیدؓ میں نبیﷺکاجویہ ارشادہےکہ‘‘سودصرف ادھارہی میں ہے۔’’تواہل علم کےنزدیک اس سےمرادیہ ہےکہ سودکی اکثروبیشترصورتوں کاتعلق ادھارسےہے،اس سےآنحضرتﷺکی یہ مرادنہیں ہےکہ سودکی تمام صورتوں کاتعلق ادھارہی سےہےجیساکہ مذکورہ دونوں احادیث اوران کی ہم معنی دیگرصحیح حدیثوں سےیہ ثابت ہوتاہےکہ سودی معاملات کاتعلق رباالفضل سےبھی ہےاوررباالنسيةسےبھی۔جوشخص بینک کےسودی کھاتوں میں رقم جمع کراتاہےوہ اوربینکردونوں معاملوں یعنی ادھاراورسودکویکجاکردیتےہین اوراس طرح گناہ کاارتکاب کرتےہیں۔
سوداداکرنےوالاکبھی محتاج بھی ہوتاہےتوصرف اس کی محتاجی ہی سودکی حرمت کی موجب نہیں ہےبلکہ یہ اس لئےحرام ہےکہ اس عقدمیں سودبھی ہےاورتنگدست پرظلم بھی کہ اسےظلم سےسوداداکرنےپرمجبورکیاجاتاہےجب کہ وہ اصل رقم کےاداکرنےسےبھی عاجزوقاصرہوتاہے،یہی وجہ ہےکہ اس مواملہ کی حرمت اورگناہ میں اوربھی اضافہ ہوجاتاہےکیونکہ واجب تویہ تھاکہ تنگدست کومہلت دی جاتی اوراسےاس سودپرمجبورنہ کیاجاتاجسےاللہ تعالیٰ نےحرام قراردیاہے۔قرض لینےاوردینےوالےکےسودی معاملےکےنفع میں شریک ہونےسےسودی معاملہ حرام کی بجائےحلال نہیں ہوجاتااورنہ اس سےیہ معاملہ شرعی بن جاتاہےکہ اس میں سودجائزہوکیونکہ شارع حکیم نےاس کی طرف التفات نہیں کیابلکہ سودکومطلقاحرام قراردیاہےجیساکہ رسول اللہﷺکی بہت سی احادیث سےثابت ہوتاہے،جن میں سےکچھ قبل ازیں بیان کی جاچکی ہیں۔اگرسودہررقم حاصل کرنےوالےکےفائدہ اٹھانےسےسودحلال ہوتاتواللہ سبحانہ وتعالیٰ اسےقرآن کریم میں بیان فرمادیتایااسےاپنےرسول امین علیہ من ربہ افضل الصلوٰۃوالتسلیم کی زبانی بیان فرمادیتا۔اللہ تعالیٰ نےسورۃالنحل میں ارشادفرمایاہےکہ:
‘‘اورہم نےتم پر(ایسی)کتاب نازل کی ہےکہ(اس میں)ہرچیزکا(مفصل)بیان ہےاورمسلمانوں کےلئےہدایت،رحمت اوربشارت ہے۔’’
صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمروبن عاصؓ سےروایت ہےکہ نبی کریمﷺنےفرمایاکہ‘‘اللہ تعالیٰ نےجونبی بھی مبعوث فرمایا،اس پریہ فرض تھاکہ اپنےعلم کےمطابق اپنی امت کی خیر کی طرف رہنمائی کرےاوراپنےعلم کےمطابق اپنی امت کوشرسےڈرائے۔’’اورہمارے نبی کریمﷺتوتمام رسولوں سے افضل،بلاغ کے اعتبارسےاکمل اوربیان کے اعتبارسے سب سے بڑھ کرتھے ،اگرمعین فائدہ کے ساتھ معاملہ جائز ہوتا یعنی اگرقرض لینے والے کے فائدہ کی صورت میں سود جائز ہوتا تواسےنبی کریمﷺامت کے لئے بیان فرمادیتےاوراس کےحکم کو واضح فرمادیتے بلکہ امرواقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺنے اپنی صریح احادیث میں اس کی حرمت بیان فرمائی ،اس سے بچنے کی تلقین کی اوراس کے ارتکاب پر وعید سنائی ہے اوریہ حقیقت معلوم ہے کہ سنت صحیحہ قرآن کریم کی تفسیراوراس کے مخفی مقامات کی تشریح وتوضیح ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے سورۃ النحل میں ارشادفرمایا ہے:
‘‘اورہم نے آپ پرذکراورنصیحت (قرآن)نازل کیا تاکہ آپ لوگوں پر ان تعلیمات کو واضح کردیں جوان کی جانب نازل کی گئی ہیں اورتاکہ وہ غوروفکر کریں۔’’
اورفرمایا:
‘‘اورہم نے آپ پر کتاب اس لئے نازل کی ہےتاکہ آپ لوگوں پر ا ن چیزوں کو کھول کرواضح بیان کردیں جن میں ان کواختلاف ہےاوریہ کتاب مومنوں کے لئے سامان ہدایت اورباعث رحمت ہے۔’’
اس مضمون کی اوربھی بہت سی آیات ہیں ۔ڈاکٹر ابراہیم نے شیخ رشید رضا کے حوالے سے جویہ ذکر کیا ہے کہ انہوں نے سیونگ بینک کے سود کو جائز قراردیا ہے تویہ ان کی غلطی ہے اوراس مسئلہ میں ان کے اس غلط مئوقف کو قبول کرناجائز نہیں ہے کیونکہ دلیل ان کے اورہر اس شخص کے خلاف ہے جو اپنی رائے اوراجتہاد سے نصوص کی مخالفت کرتا ہےاوراصول میں یہ بات طے شدہ ہے کہ نصوص موجود ہوں تو ان کے مقابلہ میں کسی کی رائے اورکسی کے اجتہاد کی کوئی اہمیت نہیں ہے بلکہ رائے اوراجتہاد سے تو ان مسائل میں کام لیا جاتا ہے جن کے بارے میں کوئی نص موجود نہ ہو ،تواس صورت میں جس کا اجتہاد صحیح ہوگا اسے دوگنا ثواب ملتا ہے اورجس کا اجتہاد غلط ہواسے بھی ایک ثواب ملتا ہے بشرطیکہ وہ اجتہاد کا اہل ہو اورطلب حق کے لئے وہ اپنی پوری استعداد اورصلاحیت سے کام لے جیسا کہ نبی کریمﷺنے فرمایا ہےکہ‘‘جب کوئی حاکم فیصلہ کرے ،اجتہاد سے کام لے اوراس کا اجتہاد صحیح ہو تو اسے دوگنا اجرملے گااورجب وہ فیصلہ کرے ،اجتہادسے کام لے اوراس کااجتہادغلط ہو تواسے ایک اجر ملے گا۔’’(متفق علیہ ،بروایت عمروبن عاص رضی اللہ عنہ اورصحیح مسلم میں یہ روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے )اوروہ مسائل جن کے بارے میں قرآن کریم یا سنت رسول ﷺمیں نص موجود ہو تواس نص کی مخالفت میں کسی کے لئے اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں ہے،بلکہ واجب یہ ہے کہ ا س نص کومضبوطی سے تھام لیا جائے اوراس کے تقاضا کے مطابق عمل کیا جائے ،چنانچہ اس اصول پر تمام اہل علم کا اجماع ہے۔
والله المستعان’ ولا حول ولا قوة الاباللهرابعا: ڈاکٹر ابراہیم نے اپنے مقالہ کے آخر میں لکھا ہے کہ ‘‘خلاصہ بحث یہ ہے کہ اس سود جسے اللہ تعالی نے قرآن کریم میں حرام قراردیا ہے اوربینکوں کے معاملات کے درمیان اس واضح مقارنہۃ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بینکوں کے معاملات ان سودی اعمال سے قطعا مختلف ہیں جن سے قرآن کریم نے منع کیا ہے کیونکہ یہ جدید معاملات ہیں اوریہ ان نصوص قطعیہ کے حکم کے تابع نہیں ہیں جن کا حرمت سود کے سلسلہ میں قرآن کریم میں ذکر آیا ہے لہذا بینکوں کے اموراورمعاملات کا جائزہ بندگان الہی کی مصلحتوں اوران کی شرعی ضرورتوں کے حوالہ سے لیا جائے گاجیسا کہ رسول اللہ ﷺنے ان مقاصد کی خاطر بیع سلم کو جائز قراردیا ہے حالانکہ یہ غیر موجود چیز کی بیع یعنی ایک ایسی چیز کی بیع ہوتی ہے جو بائع کے پاس موجو د ہی نہیں ہوتی ۔اصل میں تو رسول اللہ ﷺنے اس بیع سے منع فرمایا ہے لیکن علماء کا اجماع ہے کہ لوگوں کی ضرورت کی وجہ سے بیع سلم کو جائز قراردیا گیا ہے ،اسی طرح بیع سلم اوراس طرح کی کئی مثالوں کی وجہ سے علماء نے نصوص شریعت کے مقابلہ میں لوگوں کی ان حاجتوں اورضرورتوں کی وجہ سے کئی امور کو جائز قراردیا ہے ،جن کی وجہ سے معیشت کے سلسلہ میں لوگوں کی مصلحتیں پوری ہی نہ ہوسکتی ہوں۔’’
اس کا جواب یہ ہے کہ بینکوں کے معاملات ان سودی معاملات سے قطعا مختلف نہیں ہیں جن کی حرمت نص سے ثابت ہے اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے نبی کریم حضرت محمدﷺکو تمام جنوں اور انسانوں کی طرف مبعوث فرمایاہے اورآپؐ کوایسے احکام دیئے جو آپؐ کے زمانہ سے لے کر قیامت تک آنے والے تما م جنوں اورانسانوں کے لئے ہیں لہذا واجب یہ ہے کہ جدید معاملات کو بھی وہی حکم دیا جائے گا جوقدیم معاملات کا حکم تھا جب کہ دونوں کے معنی ایک ہوں،باقی رہا صورتوں اورالفاظ کا اختلاف تو اس کی کوئی قیمت نہیں کیونکہ اعتبار معانی اورمقاصد کا ہے اورسبھی جانتے ہیں کہ آج کل کے ان متاخرین کے بھی سودی معاملات سے وہی مقاصد ہیں جو اولین کے مقاصد تھے اگرچہ صورتیں متنوع اورالفاظ مختلف ہیں لہذا الفاظ اورصورتوں کے اختلاف کی وجہ سے قدیم وجدید سودی معاملات میں فر ق کرنا باطل ہے کیونکہ ان سب صورتوں کے معانی ومقاصد ایک ہی ہیں ،جن لوگوں نے حنین کےدن یہ کہا کہ ‘‘یا رسول اللہ !جیسے ان مشرکین کے لئے ذات انواط ہے،آپؐ ہمارے لئے بھی ایک ذات انواط مقررفرمادیجئے؟’’توآپؐ نے ان لوگوں کی اس بات کو بنی اسرائیل کی اس با ت کے مشابہہ قراردیا جو انہوں نے حضرت موسی علیہ السلام سے کہی کہ ‘‘ہمارے لئے بھی کوئی ایسا معبود بنا دیجئے جیسے ان لوگوں کے معبود ہیں(1) تواس موقع پر آنحضرت ﷺنے اختلاف الفاظ کو کوئی اہمیت نہ دی کیونکہ معنی ایک ہی تھے،اسی طرح اللہ تعالی نے نبی اسرائیل کو سزادی کہ انہوں نے جمعہ کے سن جال لگادیا تاکہ اس شکار کو حاصل کریں جسے ہفتہ کے دن شکا رکرناحرام قراردیا گیا تھا ،اس حیلہ کی وجہ سے انہیں معذوربھی نہ گردانا حالانکہ انہوں نے جال سے شکاراتوارکے روز کیا تھا کیونکہ وسیلہ اگرچہ مختلف تھا لیکن معنی ایک ہی تھا،نصوص شرعیہ سے اس طرح کی ہمیں بہت سی مثالیں ملتی ہیں ،صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشادفرمایا‘‘تم ان امور کا ارتکاب نہ کرو ،جن کا ارتکاب یہودیوں نے کیا تھا کہ اللہ تعالی کی حرام کردہ اشیاء کوادنی حیلوں کے ساتھ حلال سمجھنے لگ جاو۔’’
اسے بیع سلم کے ساتھ تشبیہ دینامحض ایک مغالطہ اورایک ایسی چیز کا ذکر کرنا ہے جو بے فائدہ ہے کیونکہ بیع سلم کا جواز تو اس شریعت کاملہ کے محاسن میں سے ہے کہ اسے اللہ تعالی نے اپنے بندوں کی ضرورت کے پیش نظر جائز دقراردیا ہے اوراسے ایسی شروط کے ساتھ مشروط کیا ہے جن کی وجہ سے یہ حرام معاملات کے دائرہ سے نکل جاتی ہے کہ یہ ایک ایسا عقد ذمہ ہے جسے ایسی صفات کے ساتھ موصوف قراردیا جاتا ہے جو اسے اس طرح نمایاں اورممتاز کردیتی ہیں کہ اس میں جہالت اوردھوکے کا کوئی شائبہ نہیں رہتا کہ سودتومدت مقررہ کے بعد دیا جاتا ہے لیکن قیمت اسی مجلس میں فورا اداکردی جاتی ہے اوراس میں جو مصلحت کارفرماہوتی ہے اس سے بائع اورمشتری دونوں مستفید ہوتے ہیں کہ بائع قیمت کے ساتھ اپنی فوری ضرورتوں کو پوراکرلیتا ہے اوریہ مشتری کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اس نے اس سودے کو کم قیمت پر خریدا ہوتا ہے جیساکہ اکثر وبیشتر صورتوں میں ہوتا ہے توبیع سلم میں کسی ضرر(نقصان )۔غرر(دھوکے)،جہالت اورسودکے بغیر بائع اورمشتری دونوں کو فائدہ ہوتا ہے ،جب کہ اس کے برعکس سودی معاملات اس معین اضافہ پر مشتمل ہوتے ہیں،جسے شارع نے حرام قراردیا ہے جب کہ جنس کی جنس کے ساتھ نقدیا ادھارہو اوراسے اکبر الکبائر میں سے قراردیا ہے ۔اس کو حرام قراردینے میں اللہ سبحانہ وتعالی کی حکمت بالغہ بھی ہے اوربند گان الہی کے لئے بھی اس میں عظیم اور اچھے نتائج ہیں کہ اس طرح وہ قرض درقرض سے محفوظ رہتے ہیں اورسودکے لالچ میں آکر اپنے منفعت بخش منصوبوں اورمفید صنعتوں کو بھی معطل نہیں کرتے۔
مقالہ نگارکاجویہ خیال ہے کہ بینک اوربینکوں کایہ نظام انسانوں کی ان ضرورتوں میں سے ہے جن کے بغیر ان کا معاشی نظام مستحکم ہوہی نہیں سکتا۔۔۔۔الخ تویہ ایک بےبنیاد خیال ہے جو صحیح نہیں ہے کیونکہ چودھویں صدی سے قبل اوربینکوں کے وجود میں آنے سے پہلے بھی اس نظام کے بغیر لوگوں کی مصلحتیں پوری ہوتی رہی ہیں اوراس دورمیں ان کی ضرورتیں تشنہ تکمیل رہیں نہ ان کے منفعت بخش پروگرام ہی معطل ہوئے بلکہ خلل اورمصالح میں تعطل تواس وقت رونما ہوا جب لوگوں نے ان حرام معاملات کو اختیار کیا اورمعاشرے نے اپنے فرض کو ادانہ کیا کہ لوگ اپنے بھائیوں کے ساتھ معاملہ میں ہمدردی وخیر خواہی اورامانت وسچائی کو اختیار کرتے اوران تمام معاملات سے اجتناب کرتے جو سود ،دھوکے ،خیانت اورملاوٹ پر مبنی ہیں،چنانچہ دنیا کے حالات ہماری اس بات کی صداقت کی گواہی دے رہے ہیں۔مصالح کو صرف اسی وقت پروان چڑھایاجاسکتا ہے اورمفید تعاون کی راہیں صرف اسی صورت میں ہموارہوسکتی ہیں کہ ہم اس شاہراہ شریعت کواختیار کریں جو صداقت وامانت پر مبنی اورکذب وخیانت اوران امورسےدورہے ،جنہیں اللہ تعالی نے معاملات کے سلسلہ میں اپنے بندوں پر حرام قراردیا ہے جیساکہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی کتاب مبین میں ارشاد فرمایاہے کہ:
‘‘(اوردیکھو)نیکی اورپرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مددکیا کرواورگناہ اورظلم کی کاموں میں مددنہ کیا کرو۔’’
اورفرمایا:
‘‘تحقیق اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرواورجب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو توانصاف سے فیصلہ کرو۔’’
مزیدفرمایا:
‘‘اے ایمان والو!اللہ اوراس کے رسول کی امانت میں خیانت کرونہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو اورتم (ان باتوں کو )جانتے ہو۔’’
نیزفرمایا:
‘‘مومنو!جب تم آپس میں کسی میعاد معین کے لئے قرض کا معاملہ کرنے لگوتواس کو لکھ لیا کرواورلکھنے والے کو چاہئے کہ (کسی کا نقصان نہ کرے بلکہ)تمہارا آپس کا معاملہ انصاف سے لکھے اورلکھنے سے انکاربھی نہ کرے،جس طرح اللہ تعالی نے اسے سکھایا ہے پس اسے بھی لکھ دینا چاہئےاورجس کے ذمہ حق ہووہ (یعنی مقروض )لکھوائےاوراللہ تعالی سے ڈرے جو اس کا پروردگارہے اورحق میں سے کچھ کم نہ کرے(یعنی اس کے ذمہ جو قرض ہے وہ پورالکھوائے ،کم نہ لکھوائے۔)
اورفرمایا:
‘‘مومنو!اللہ سے ڈرا کرو اوربات سیدھی کیا کرو،وہ تمہارے سب اعمال درست کردے گااورتمہارے گناہ بخش دے گا۔’’
اورنبی کریمﷺنے فرمایا ہے کہ‘‘دونوں بیع کرنے والوں کو اختیار حاصل ہے جب تک وہ جدانہ ہوں اگروہ سچ بولیں اورسب کچھ بیان کردیں توان کی بیع میں برکت ہوگی اوراگروہ چھپائیں اورجھوٹ بولیں توان کی بیع کی برکت ختم کردی جائے گی۔’’
(متفق علیہ)حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہﷺنے فرمایا‘‘سوناسونے کےبدلے،چاندی چاندی کے بدلے ،گندم گندم کے بدلے ،جوجوکے بدلے کھجورکھجورکے بدلے اورنمک نمک کے بدلے ،برابر برابراوردست بدست جوزیادہ دے یا زیادہ طلب کرے تواس نے سودی معاملہ کیا اوراس معاملہ میں سود لینے والا اوردینے والادونوں برابرہیں۔’’(احمد ،بخاری)اورحضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا‘‘سودکھانے والا،کھلانے والا،لکھنے والااوردونوں گواہ سب برابرہیں۔’’(مسلم)
حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،رسول اللہﷺنے فرمایا‘‘سونا سونے کے بدلے سود ہے الایہ کہ سودابرابربرابر ہواورگندم کے بدلے گندم سود ہے مگریہ کہ سودابرابربرابر ہواورجوجوکے بدلے سود ہےالایہ کہ سودابرابربرابر ہواوکھجورکھجورکے بدلے سود ہےالا یہ کہ سودابرابربرابر ہو’’(متفق علیہ)نبی علیہ الصلوۃوالسلام کا یہ بھی ارشادگرامی ہے کہ ‘‘جو ہمیں دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔’’(مسلم) نبی علیہ الصلوۃوالسلام نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ‘‘کیا میں تمہیں نہ بتاوں کہ کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑے گناہ کون سے ہیں؟’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ضرورارشادفرمایئے یا رسول اللہ!فرمایا‘‘اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا اوروالدین کی نافرمانی کرنا۔’’یہ ارشادفرماتے وقت آپؐ تکیہ کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھےکہ اٹھ بیٹھے اورفرمایاکہ‘‘خبردارآگاہ رہوکہ جھوٹی بات اورجھوٹی گواہی بھی کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔’’(متفق علیہ)اس مضمون کی اوربھی بہت سی احادیث ہیں کسی بھی آدمی کے لئے یہ جائز نہیں کہ جس چیز کو اللہ تعالی نے نص کے ذریعے حرام قراردیا ہے،کوئی شخص نص کے ذریعے حلال کئے ہوئے امرپر قیاس کرتے ہوئےاسے حلال قراردےلہذا جوشخص اللہ تعالی کے حرام کردہ سود کو اس کے حلال کردہ بیع سلم پرقیاس کرتے ہوئے حلال قراردے،وہ ایک عظیم منکر کا ارتکاب کرتا ہے،بغیر علم کے اللہ تعالی کی طرف ایک بات کو منسوب کرتا ہے اوروہ لوگوں کے لئے ایک بہت بڑی برائی اورایک بہت بڑے شروفسادکا دروازہ کھولتا ہے ۔قیاس کے قائل اہل علم کے نزدیک قیاس ان فرعی مسائل میں ہوتا ہے۔جن کے بارے میں کوئی نص موجود نہ ہواورایسی شروط موجود ہوں جو فروع کواصل کے ساتھ ملاتی ہوں جیسا کہ اپنے مقام پر اس مسئلہ کی تفصیل موجود ہے۔اللہ تعالی نے اس بات کو بھی حرام قراردیا ہےکہ بغیر علم کے اس کی طرف کسی بات کو منسوب کیا جائے،اس بات کو شرک سے بھی بڑا گناہ قراردیا ہےاوراللہ سبحانہ وتعالی نے بیان فرمایا ہےکہ شیطان اس بات کی دعوت دیتا اوراس کاحکم دیتا ہے جیسا کہ وہ فحاشی ومنکرات کی طرف دعوت دیتا ہے ارشادباری تعالی ہے:
‘‘(اے پیغمبر!)کہہ دوکہ میرے رب نے تو بےحیائی کی باتوں کو ظاہر ہوں یا پوشیدہ اورگناہ کو اورناحق زیادتی کرنے کو، حرام کیا ہےاور اس کو بھی(حرام کیا ہے) کہ تم کسی کو اللہ کا شریک بناو جس کی اس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس کو بھی کہ اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کہو جن کا تمہیں کچھ علم نہیں۔’’
نیزفرمایا:
‘‘لوگو!جوچیزیں زمین میں حلال طیب ہیں وہ کھاؤاورشیطان کےقدموں پرنہ چلووہ تمہاراکھلادشمن ہے،وہ توتمہیں برائی اوربےحیائی ہی کےکام کرنےکاحکم دیتاہےاوریہ بھی کہ اللہ کی نسبت ایسی باتیں کہوجن کاتمہیں(کچھ بھی)علم نہیں۔’’
ہم اللہ تعالیٰ سےدعاکرتےہیں کہ وہ مسلمانوں کےحالات کی اصلاح فرمادے،انہیں دین کی سمجھ بوجھ عطافرمائے،علماءکوتوفیق بخشےکہ وہ ان امورکوبیان کریں جنہیں اللہ تعالیٰ نےاحکام شریعت قراردیتےہوئےمسلمانوں پرواجب ٹھہرایاہےنیزعلماء،دین کی دعوت دیں،دین کےمخالف امورسےعوام الناس کوآگاہ کریں،اوراللہ تعالیٰ انہیں اپنےنفسوں کےشراورباطل کےعلمبرداروں کےشرسےمحفوظ رکھے۔اللہ تعالیٰ اس مقالہ نگارابراہیم کوبھی توفیق بخشےکہ وہ حق کی طرف رجوع کرے،اس سےجوکچھ صادرہوااس سےتوبہ کرےاوراپنی اس توبہ کاکھلم کھلااعلان کرےتاکہ اللہ تعالیٰ بھی اس کی توبہ کوقبول فرمالے۔
‘‘اورمومنو!سب اللہ کےآگےتوبہ کروتاکہ فلاح پاؤ۔’’
نیزفرمان باری تعالیٰ ہے:
‘‘جولوگو ہمارےحکموں اورہدایتوں کوجوہم نےنازل کی ہیں(کسی غرض فاسدسے)چھپاتےہیں باوجودیکہ ہم نے(وہ حکم اورہدایتیں)ان لوگوں کے(سمجھانےکے)لئےاپنی کتاب میں کھول کھول کربیان کردی ہیں ایسےلوگوں پراللہ تعالیٰ اورتمام لعنت کرنےوالےلعنت کرتےہیں،ہاں جوتوبہ کرتےہیں،اپنی حالت درست کرلیتےاور(احکام الہٰی کو)صاف کھول کھول کر(واضح)بیان کردیتےہیں تومیں ان کےقصورمعاف کردیتاہوں اورمیں بڑامعاف کرنےوالا(اور)رحم کرنےوالاہوں۔’’
اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹرابراہیم نےجوکچھ کہاہےاس کےبارےمیں اس سےزیادہ لکھاجاسکتاہے،جومیں نےلکھاہےتاہم امیدہےکہ میں نےجوکچھ لکھاہےیہ ایک طالب حق کےلئےکافی ہے۔
(1)یہ حضرت ابوواقدلیثی رضی اللہ عنہ سےمروی اس حدیث کی طرف اشارہ ہے کہ ہم جنگ حنین کے موقع پر رسول اللہ ﷺکے ساتھ مقام حنین کی طرف جارہے تھے اورہمارازمانہ کفر ابھی نیا نیا گزراتھا،راستے میں ایک جگہ بیری کا درخت آیا جس کو ذات ابواط کہا جاتا تھا ،مشرکین اس درخت کے پاس بیٹھنا باعث برکت خیال کرتے تھے اوراپنے ہتھیار بھی برکت کے لئے اس درخت پر لٹکایا کرتے تھے حضرت ابوواقدلیثی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ چلتے چلتے ہم ایک بیری کے درخت کے پاس سے گزرےتوہم نے آپؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ جیسے ان مشرکین کے لئے ذات انواط ہے ،آپؐ ہمارے لئے بھی ایک ذات انواط مقررفرمادیجئے،رسول اللہ ﷺنے اللہ اکبر کہا اورفرمایاتم بالکل وہی بات کہہ رہے ہو جوبنی اسرائیل نے حضرت موسی علیہ السلام سے کہی تھی کہ اے موسی‘‘ہمارے لئے بھی کوئی ایسا معبود بنا دے جیسے ان لوگوں کے معبود ہیں توموسی علیہ السلام جواب دیا کہ تم لوگ بڑی نادانی کی باتیں کرتے ہو اورپھر آپﷺنے فرمایاکہ تم بھی اگلی امتوں کے طریقوں پر چلوگے۔امام ترمذی نے اس حدیث کو روایت کیا اوراسے صحیح قراردیا ہے ،علاوہ ازیں اسے امام احمد ،ابویعلی،ابن ابی شیبہ،نسائی،ابن المنذر،ابن ابی حاتم اورکئی محدثین کرام رحھم اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔(مترجم)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب