سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(21)نمازی کے کس قدر آگے سے گزرنا منع ہے؟

  • 15209
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1344

سوال

(21)نمازی کے کس قدر آگے سے گزرنا منع ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نمازی کے کس قدر آگے سے گزرنا منع ہے؟ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نمازی کی نماز کی جو حد ہے، یعنی جہاں سترہ قائم کرنے کا حکم ہے، اس کے آگے سے گزر سکتا ہے، اس کے اندر گزرنا منع ہے۔ صحیحین میں ہے:

’’ عن أبى جحیفة، رأیت بلا لا أخذ عنزة فرکزھا، وخرج رسول اللہ ﷺ فى حلة حمراء مشمرا، صلی إلی العنزة بالناس رکعتین، ورأیت الناس والدواب یمرون بین یدي العنزہ‘‘ (متفق علیه)  ،( فتاویٰ غازی پوری، قلمی ص: ۶۹)

’’ میں نے بلال رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انھوں نے چھوٹا نیزہ لے کر گاڑ دیا، پھر رسول اللہ ﷺ سرخ جوڑا زیب تن کیے ہوئے تیزی سے تشریف لائے، آپ نے چھوٹے نیزے کی طرف رخ کرکے لوگوں کو دو رکعتیں پڑھائیں اور میں نے لوگوں اور چوپاؤں کو آپ کے آگے سے گزرتے ہوئے دیکھا۔‘‘

اور سترہ قائم کرنے کی جگہ سجدہ گاہ کے آگے ہے، جو قریب ڈھائی تین ہاتھ کے ہے۔

’’ عن نانع أن عبداللہ کان إذا دخل الکعبة مشی قبل وجهه حین یدخل، وجعل الباب قبل ظھره، فمشیٰ حتی یکون بینه وبین الجدار الذى قبل وجھه قریبا من ثلاثة أذرع صلیٰ، یتوخیٰ المکان الذى أخبرہ به بلال أن النبى ﷺ صلیٰ فیه ‘‘بخاری بعدباب الصلوة بین السوارى فى غیر جماعة( صحیح البخارى، رقم الحدیث ۴۸۴)  

’’ نافع بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب کعبہ کے اندر داخل ہوتے تو سامنے کی طرف چلتے اور دروازہ اپنی پیٹھ کی طرف چھوڑ دیتے، پھر اس طرح چلتے اور جب سامنے کی دیوار تقریباً تین ہاتھ رہ جاتی تو نماز پڑھتے تھے، اس طرح آپ اس جگہ نماز پڑھنے کا اہتمام کرتے تھے، جس کے متعلق بلال رضی اللہ عنہ نے انھیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے وہیں نماز پڑھی تھی۔‘‘

’’ وعن سھل بن سعد قال : کان بین مصلیٰ رسول اللہ ﷺ وبین الجدار ممر الشاة ‘‘ (بخارى، باب قدر کم ینبغى أن یکون بین المصلى والسترة ) (صحیح البخارى، رقم الحدیث (۳۶۹) صحیح مسلم، رقم الحدیث ۳۰۵)

’’ سہل بن سعد رضی اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کی جائے نماز اور دیوار کے درمیان ایک بکری کے گزرنے کے برابر جگہ ہوتی تھی۔‘‘

قال الحافظ فى الفتح (۲؍ ۲۸۶) : ’’ قال ابن بطال: ھذا أقل ما یکون بین المصلى والسترة، یعنى قدر ممر الشاة، وقیل : أقل ذلک ثلاثة أذرع،لحدیث بلال أن النبى ﷺ صلی فى الکعبة، وبینه وبین الجدار ثلاثة أذرع، کما سیأتى قریباً بعد خمسة أبواب، وجمع الداودی بأن أقله ممر الشاة وأکثره ثلاثة أذرع، وجمع بعضھم بأن الأول فى حال القیام والقعود، والثانى فى حال الرکوع والسجود‘‘ انتھی ما فى الفتح وقال فى نیل الأوطار: والظاھر أن الأمر بالعکس (یعنى أن ثلاثة أذرع فى حالة القیام وقدر ممر الشاة فى حال الرکوع والسجود) وقال ابن الصلاح : قدروا ممر الشاة بثلاثة أذرع، قال الحافظ: ولا یخفیٰ ما فیه، وقال البغوى: استحب أھل العلم الدنو من السترة، بحیث یکون بینه وبینھا قدر إمکان السجود، وکذلک بین الصفوف۔‘‘ (نیل الأوطار ۳؍۳)

’’ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں: ابن بطال نے کہا ہے کہ یہ وہ کم از کم جگہ ہے، جو نمازی اور سترے کے درمیان ہونی چاہیے، یعنی بکری کے گزرنے کے برابر، ایک قول کے مطابق اس کی کم از کم مقدار تین ہاتھ ہے، کیوں کہ بلال رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے کعبہ میں نماز پڑھی تو آپکے درمیان اور دیوار کے درمیان تین ہاتھ کے برابر فاصلہ تھا، جیسا کہ پانچ ابواب کے آگے آرہا ہے۔ امام داودی نے اس طرح تطبیق دی ہے کہ اس کی کم از کم مقدار بکری گزرنے کے برابر اور زیادہ سے زیادہ تین ہاتھ ہے۔ بعض اہلِ علم نے اس طرح بھی دونوں حدیثوں میں تطبیق دی ہے کہ پہلی کیفیت قیام اور قعدے کے وقت ہے اور دوسری رکوع وسجود کے وقت ہے۔  لیکن نیل الاوطار میں امام شوکانی نے کہا ہے کہ حدیث سے اس کے برعکس ظاہر ہوتا ہے (یعنی تین ہاتھ رکوع و سجود کے وقت اور بکری کے گزرنے کے برابر قیام و قعدے کے وقت ہے) حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ اس کی کمزوری عیاں ہے۔ امام بغوی فرماتے ہیں کہ اہلِ علم نے سترے کے اس قدر قریب ہونا مستحب قرار دیا ہے کہ نمازی اور سترے کے درمیان اتنی جگہ ہو کہ بہ آسانی سجدہ کرنا ممکن ہو اور اتنا ہی فاصلہ صفوں کے درمیان ہونا چاہیے۔ ’’ سترے کے قریب ہونے کا حکم بھی حدیث میں مروی ہے، جس میں اس کی حکمت بھی بیان ہوتی ہے۔ چناں چہ امام ابوداود وغیرہ سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً بیان کرتے ہیں کہ جب تم میں سے کوئی ایک نماز پڑھے تو سترے کے قریب ہو جائے، کہیں شیطان اس پر اس کی نماز کو قطع نہ کردے۔‘‘

اور یہ حکم ہے کہ اگر کوئی نمازی اور اس کے سترہ کے درمیان سے گزرے تو نمازی اس کو جس طرح ہوسکے، روکے:

عن أبى سعید قال : سمعت النبى ﷺ یقول : (( إذا صلی أحدکم إلی شىء یستره من الناس فأراد أحد أن یجتاز بین یدیه فلیدفعه، فإن أبیٰ فلیقاتله فإنما ھو شیطان )) (بخارى، باب یرد المصلى من مربین یدیه ) ، (صحیح البخارى، رقم الحدیث ۴۸۷ ، صحیح مسلم، رقم الحدیث ۵۰۵)

’’ ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص کسی ایسی چیز کی طرف رخ کرکے نماز پڑھے جو اسے لوگوں سے چھپا رہی ہو (یعنی کسی چیز کو سترہ بنا کر نماز پڑھے) اور پھر بھی کوئی شخص اس کے آگے سے گزرنا چاہے تو وہ اسے روکے، لیکن اگر وہ باز نہ آئے تو پھر وہ اس سے لڑے، کیونکہ وہ شیطان ہے۔‘‘

ان روایات سے ثابت ہے کہ نمازی کی نماز کی جگہ کی حد اس کے کھڑے ہونے کی جگہ سے سجدہ گاہ تک ہے، اس درمیان سے گزرنا منع ہے اور اس کے آگے سے درست ہے، اور اسی مدعا کی موید صحیحین کی یہ روایت بھی ہے:

’’ عن ابن عباس قال : أقبلت راکبا علی أتان، وأنا یومئذ قد ناھزت الاحتلام، ورسول اللہ ﷺ یصلي بالناس بمنیً إلی غیر جدار فمررت بین یدى بعض الصف فنزلت، وأرسلت الأتان ترقع، ودخلت فى الصف فلم ینکر ذلک علَيَّ أحد ‘‘ متفق علیہ (صحیح البخارى، رقم الحدیث ۷۶، صحیح مسلم، رقم الحدیث ۵۰۴)
’’ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں، میں ایک دن گدھی پر سوار ہو کر آیا، میں ان دنوں قریب البلوغ تھا، جب کہ رسول اللہ ﷺ اس وقت کسی دیوار کی اوٹ لیے بغیر مِنیٰ میں نماز پڑھا رہے تھے، پس میں ایک صف کے آگے سے گزرا، پھر میں گدھی سے اترا اور اسے چرنے کے لیے چھوڑ دیا اور خود صف میں شامل ہوگیا اور کسی نے بھی مجھ پر اعتراض نہ کیا۔‘‘
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

مجموعہ مقالات، و فتاویٰ

صفحہ نمبر 115

محدث فتویٰ

تبصرے