نمازی کے کس قدر آگے سے گزرنا منع ہے؟
نمازی کی نماز کی جو حد ہے، یعنی جہاں سترہ قائم کرنے کا حکم ہے، اس کے آگے سے گزر سکتا ہے، اس کے اندر گزرنا منع ہے۔ صحیحین میں ہے:
’’ میں نے بلال رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انھوں نے چھوٹا نیزہ لے کر گاڑ دیا، پھر رسول اللہ ﷺ سرخ جوڑا زیب تن کیے ہوئے تیزی سے تشریف لائے، آپ نے چھوٹے نیزے کی طرف رخ کرکے لوگوں کو دو رکعتیں پڑھائیں اور میں نے لوگوں اور چوپاؤں کو آپ کے آگے سے گزرتے ہوئے دیکھا۔‘‘
اور سترہ قائم کرنے کی جگہ سجدہ گاہ کے آگے ہے، جو قریب ڈھائی تین ہاتھ کے ہے۔
’’ نافع بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب کعبہ کے اندر داخل ہوتے تو سامنے کی طرف چلتے اور دروازہ اپنی پیٹھ کی طرف چھوڑ دیتے، پھر اس طرح چلتے اور جب سامنے کی دیوار تقریباً تین ہاتھ رہ جاتی تو نماز پڑھتے تھے، اس طرح آپ اس جگہ نماز پڑھنے کا اہتمام کرتے تھے، جس کے متعلق بلال رضی اللہ عنہ نے انھیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے وہیں نماز پڑھی تھی۔‘‘
’’ سہل بن سعد رضی اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کی جائے نماز اور دیوار کے درمیان ایک بکری کے گزرنے کے برابر جگہ ہوتی تھی۔‘‘
قال الحافظ فى الفتح (۲؍ ۲۸۶) : ’’ قال ابن بطال: ھذا أقل ما یکون بین المصلى والسترة، یعنى قدر ممر الشاة، وقیل : أقل ذلک ثلاثة أذرع،لحدیث بلال أن النبى ﷺ صلی فى الکعبة، وبینه وبین الجدار ثلاثة أذرع، کما سیأتى قریباً بعد خمسة أبواب، وجمع الداودی بأن أقله ممر الشاة وأکثره ثلاثة أذرع، وجمع بعضھم بأن الأول فى حال القیام والقعود، والثانى فى حال الرکوع والسجود‘‘ انتھی ما فى الفتح وقال فى نیل الأوطار: والظاھر أن الأمر بالعکس (یعنى أن ثلاثة أذرع فى حالة القیام وقدر ممر الشاة فى حال الرکوع والسجود) وقال ابن الصلاح : قدروا ممر الشاة بثلاثة أذرع، قال الحافظ: ولا یخفیٰ ما فیه، وقال البغوى: استحب أھل العلم الدنو من السترة، بحیث یکون بینه وبینھا قدر إمکان السجود، وکذلک بین الصفوف۔‘‘ (نیل الأوطار ۳؍۳)’’ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں: ابن بطال نے کہا ہے کہ یہ وہ کم از کم جگہ ہے، جو نمازی اور سترے کے درمیان ہونی چاہیے، یعنی بکری کے گزرنے کے برابر، ایک قول کے مطابق اس کی کم از کم مقدار تین ہاتھ ہے، کیوں کہ بلال رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے کعبہ میں نماز پڑھی تو آپکے درمیان اور دیوار کے درمیان تین ہاتھ کے برابر فاصلہ تھا، جیسا کہ پانچ ابواب کے آگے آرہا ہے۔ امام داودی نے اس طرح تطبیق دی ہے کہ اس کی کم از کم مقدار بکری گزرنے کے برابر اور زیادہ سے زیادہ تین ہاتھ ہے۔ بعض اہلِ علم نے اس طرح بھی دونوں حدیثوں میں تطبیق دی ہے کہ پہلی کیفیت قیام اور قعدے کے وقت ہے اور دوسری رکوع وسجود کے وقت ہے۔ لیکن نیل الاوطار میں امام شوکانی نے کہا ہے کہ حدیث سے اس کے برعکس ظاہر ہوتا ہے (یعنی تین ہاتھ رکوع و سجود کے وقت اور بکری کے گزرنے کے برابر قیام و قعدے کے وقت ہے) حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ اس کی کمزوری عیاں ہے۔ امام بغوی فرماتے ہیں کہ اہلِ علم نے سترے کے اس قدر قریب ہونا مستحب قرار دیا ہے کہ نمازی اور سترے کے درمیان اتنی جگہ ہو کہ بہ آسانی سجدہ کرنا ممکن ہو اور اتنا ہی فاصلہ صفوں کے درمیان ہونا چاہیے۔ ’’ سترے کے قریب ہونے کا حکم بھی حدیث میں مروی ہے، جس میں اس کی حکمت بھی بیان ہوتی ہے۔ چناں چہ امام ابوداود وغیرہ سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً بیان کرتے ہیں کہ جب تم میں سے کوئی ایک نماز پڑھے تو سترے کے قریب ہو جائے، کہیں شیطان اس پر اس کی نماز کو قطع نہ کردے۔‘‘
اور یہ حکم ہے کہ اگر کوئی نمازی اور اس کے سترہ کے درمیان سے گزرے تو نمازی اس کو جس طرح ہوسکے، روکے:
’’ ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص کسی ایسی چیز کی طرف رخ کرکے نماز پڑھے جو اسے لوگوں سے چھپا رہی ہو (یعنی کسی چیز کو سترہ بنا کر نماز پڑھے) اور پھر بھی کوئی شخص اس کے آگے سے گزرنا چاہے تو وہ اسے روکے، لیکن اگر وہ باز نہ آئے تو پھر وہ اس سے لڑے، کیونکہ وہ شیطان ہے۔‘‘
ان روایات سے ثابت ہے کہ نمازی کی نماز کی جگہ کی حد اس کے کھڑے ہونے کی جگہ سے سجدہ گاہ تک ہے، اس درمیان سے گزرنا منع ہے اور اس کے آگے سے درست ہے، اور اسی مدعا کی موید صحیحین کی یہ روایت بھی ہے: