سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(12)۔ بیعتِ توبہ کی بحث

  • 15201
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 915

سوال

(12)۔ بیعتِ توبہ کی بحث
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بیعتِ توبہ کی بحث: (إعلام الأنام بزلة بعض الأعلام از مولانا فقیر اللہ پنجابی مدراسی) ۔ [ع،ش]

سوال: الحمد للہ رب العالمین، والصلوۃ والسلام علی رسوله محمد وآله وآصحابه أجمعین۔

صاحب اشاعتہ السنہ نے (جلد ۲۰ ص ۳۴۹) میں بعنوان ’’ اہل حدیث میں جعلی پیری مریدی‘‘ متعلق بیعت توبہ کی بحث طویل لکھا ہے اور جناب مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی امرتسری کے بارہ میں یوں لکھا ہے:

’’ مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی پر بھی یہی بدگمانی کی جاتی ہے کہ انھوں نے مرزا کو دیکھ کر پیری مریدی کو وسعت دی ہے اور اپنے امام ہونے کی شہرت پسند کرتے ہیں۔‘‘

پس اب سوال یہ ہے کہ بیعت توبہ جائز ہے یا نہیں؟ اور جناب مولوی عبدالجبار صاحب اس امر کے اہل ہیں یا نہیں کہ ان پر بیعت کی جائے اور مولوی صاحب غزنوی کی تشبیہ مرزا کے ساتھ صحیح ہے یا نہیں؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بیعتِ توبہ منجملہ مستحبات کے ہے اور اس کے استحباب پر بہت سے ادلہ شرعیہ قائم ہیں۔ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ سے چونکہ اس کا بیان مکمل طور پر فتح البیان۔ تفسیر سورۃ الفتح میں عمدہ طور سے موجود ہے۔ اس لیے یہاں اس کی تفصیل نہیں کی گئی۔ اگر زیادہ تحقیق طلب ہو تو فتح البیان اور قوت القلوب اور عوارف المعارف اور رسالہ القشیریہ اور اتحاف السادۃ المتقین کو دیکھنا چاہیے۔ اس مسئلہ کی اس میں پوری بحث ہے اور آخذِ بیعت کے لیے جتنے شرائط چاہیے، یعنی ’’ کونه عالماً بالکتاب والسنة، آمراً بالمعروف، ناھیاً عن المنکر، وکونه صاحب العدالة والتقوی والصدق والضبط، وکونه زاھداً فى الدنیا، راغبا فى الآخرة مواظباً علی الطاعات المؤکدة والأذکار المأثورة، وأن یکون صحب العلماء بالکتاب والسنة وتأدب بھم طویلاً وأخذ عنه العلم والفضل وغیر ذلک من الشروط الصحیحة۔‘‘

’’ یعنی کتاب و سنت کے عالم ہوں۔ وہ اچھائی کا حکم دیتے ہوں اور برائیوں سے منع کرتے ہوں۔ وہ تقویٰ اور عمدہ اخلاقی خوبیوں کے مالک ہوں اور سچ کے پابند ہوں۔ حفظ میں اچھا مقام رکھتے ہوں۔ انھوں نے دنیا کے معاملات میں زُہد اختیار کیا ہوا ہو اور آخرت کے بارے میں بہت سوچ و فکر اور کوشش کرنے والے ہوں۔ جو فرض عبادتیں ہیں اور دین کے اہم اور ضروری مسائل ہیں، ان کی پابندی کرنے والے ہوں اور جو صحیح احادیث سے ثابت شدہ ذکر اور دعائیں ہیں، ان کی پابندی کرنے والے ہوں۔ جنھوں نے کتاب و سنت کے علمائے کرام سے براہ راست علم حاصل کیا ہو اور وہ طویل عرصے تک اہل علم و فضل سے استفادہ کرتے رہے ہوں اور وہ خود بھی اہل علم کی اچھی اور عمدہ اخلاقی روش کو اپنانے والے ہوں۔‘‘

یہ تمام شرائط جناب مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی میں۔ فیما أظن واللہ حسیبہ۔ موجود ہیں اور وہ اس امر کے لائق و قابل ہیں کہ ان پر لوگ بیعت توبہ کریں۔

اور مرزا۔ أخذہ اللہ تعالیٰ۔ کے ساتھ تشبیہ دینا ایک عالم متقی کو محض غلط و باطل و محمول علی العناد ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

مجموعہ مقالات، و فتاویٰ

صفحہ نمبر 96

محدث فتویٰ

تبصرے