نذر بغیر اللہ حرام قطعی ہے ۔ اس لیے کہ نذر عبادت ہے التزام عبادت غیر لازمہ سے' اور عبادت غیر خدا کی حرام ہے۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے
اور بھی فرمایا ہے:
اور ابن نجیم مصری نے بحر الرائق میں لکھا ہے
فهذا النذر باطل بالاجماع لوجوه منها انه نذر للمخلوق والنذر للمخلوق لايجوز’لانه عبادة والعباد لاتكون للمخلوقّ ومنها ان المنذر له ميت ‘ والميت لايملك ومنها انه ظن ان الميت يتصرف في الامور دون ذلك كفر ّ انتهيپس معلوم کرنا چاہیے کہ ذبح کرنا واسطے غیر خدا کے اور تقرب چاہنا اسی غیر خدا سے ۔ اگر چہ وقت ذبح کے بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر ذبح کرے حرام ہے ۔ اور گوشت اس کا نجس ' اور ذابح اس کا مرتد ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
امام فخر الدین رازی نے تحت آیۃ الکریمہ لکھا ہے :
قال ربیع بن انس وربیع بن زید: یعنی ماذکر علیه اسم غيرالله وهذا القول اولي لانه اشد مطابقة للفظ ’ قال العلماء لو ان مسلما ذبح ذبيحة وقصد بذبحة التقرب الي غيرالله صار مرتدا او ذبيحته مرتدّ انتهيمولانا شاہ عبدالعزیز تفسیر فتح العزیز میں فرماتے ہیں :
ہر کہ بذبح جانور تقرب الی اللہ نما ید ملعون است ، خواہ دروقت ذبح نام خدا گیر دیانے، زیر کہ چوں شہرت دادکہ ایں جانور برائے فلانے است ذکر نام خدا وقت ذبح فایدہ نہ کرو۔ چہ آں جانور منسوب بآں غیر گشت ، وخبثے درد پیدا گشت کہ زیادہ از خبث مردار است ' زیر اکہ مرادر بے ذکر نام خدا جان دادہاست ، وجان جانوراازاں غیر خدا قراروادہ کشتہ اند وآن عین شرک است ' وہر گاہ ایں خبث دروے سرایت کردویگر بذکر نام خدا حلال نمی گردد انتھی فتاوی اخراب میں مذکور ہےَ
وفي الذبح يشترط تجريد التسمية مع قصدالتقرب الي الله تعاليي وحده بالذبح ّ فان فات قصد التعظيم لله تعاليٰ في الذبح بان قصد يه التقرب مالي الآدمي لايحل وان ذكر التسمية
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب