سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(54) قنوتِ نازلہ کیا اور کیوں ؟

  • 14663
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2537

سوال

(54) قنوتِ نازلہ کیا اور کیوں ؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قنوتِ نازلہ کیا ہے اور یہ کیوں کی جاتی ہے ۔ یہ قنوت کچھ مدت کیلئے تھی یا ہمیشہ جاری رہی اور اسی طرح اب ضرورت کے تحت قنوت ہو گی یا ہمیشہ جاری رکھی جائے گی ؟ قنوت کیلئے کوئی منسون دُعا ہے یا حالات کے تحت کمی بیشی ممکن ہے۔ اس کی دلیل کیا ہے بعض لوگ دعا میں اپنی ذاتی دعائیں بھی شامل کر لیتے ہیں آخر میں صلی اللہ علی النبی پڑھتے ہیں اس کی کوئی دلیل ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قنوت دُعا کو کہتے ہین اور نازلہ کا معنی مصیبت میں گرفتار ہونا ہے۔ زمانے کی حواد ثات میں پھنس جانے کے وقت نماز میں اللہ تعالیٰ سے گریہ وزاری کر ان حواد ثات ووقائع کے دفعیہ کیلئے التجا کرنا اورنہ عجو انکساری ان واقعات سے نجات پانے کیلئے دعائیں مانگنا قنوتِ نازلہ کہلاتا ہے۔
    دُنیا میں مصائب و آلام کئی طرح کے ہوتے ہیں مثلاً دنیا کے کسی خطہ میں مسلمانوں پر کفار و مشرکین یا یہودی یا عیسائی ظلم و ستم کے پہاڑ تو ڑ ررہے ہیں۔ دن رات ان کو پریشانیوں میں متبلا کر رہے ہیں ۔ ان کو قید و بند کی صعو بتوں میں مبتلا کر دیتے ہیں اور کمزور و لا غر مسلمان ان کے ظلم و ستم کا تختہ مشق بنے ہوئے ہیں وغیرہ تو ان تمام حالات میں قنوتِ نازلہ کی جاتی ہے اوریہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم تابعین عظام، فقہاء محدثین اور سلف صالحین  رحمہ اللہ  کا طریقہ رہا ہے۔ اس دعا کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسلمان اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہوئے انتہائی تذلل اور عجز و انکساری کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں اور اللہ تعالیٰ سے دُعا کریں کہ یا اللہ ہمیں ان مصائب و آلام سے محفوظ فرما۔ ہمارے گناہوں کو بخش دے ۔
    سیدہ عائشہ  رضی اللہ تعالٰی عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : میں قنوت اس لئے کرتا ہوں تاکہ تم اپنے پر رودگار کو پکارو اور اور اسے اپنی ضروریات کے بارے میں سوال کرو ۔ ( مجمع الزوائد ۲٢/ ۱۳۸)
    نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مصیبت پریشانی اور رنج و غم کے پیش نظر کبھی پانچوں نمازوں میں ۔ چنانچہ صحیح مسلم ١۱/ ۲۳۷٢ میں سیدنا ابو ہریرہ  رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں ۔

(( و الله لأقربن بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فكان أبو هريرة يقنت فى الظهر و العشاء الأخر و صلوة الصبح و يدعوا للمؤمنين و يلعن الكفار.))

    '' اللہ کی قسم ! میں تمہارے قریب وہ نمازا دا کروں جو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی نماز ہے ۔ پس سیدنا ابو ہریرہ  رضی اللہ تعالٰی عنہ ظہر، عشاء اور فجر کی نماز مین قنوت کرتے تھے اور مومنوں کیلئے دُعا کرتے اور کافروں پر لعنت کرتے تھے ''۔
    سیدنا براء بن عازب  رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  صبح اور مغرب کی نماز میں قنوت کرتے تھے ۔ ( مسلم ۱/ ۲۳۷)

(( عن أبى هريرة قال قنت رسول الله صلى الله عليه وسلم فى صلاة العتمة شهرا.)( صحيح ابو داؤد 1/270)

رسو ل اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے عشاء کی نماز میں ایک ماہ قنوت کیا ۔

((عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " قَنَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهْرًا مُتَتَابِعًا فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ وَصَلَاةِ الصُّبْحِ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ، إِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ مِنَ الرَّكْعَةِ الْآخِرَةِ، يَدْعُو عَلَى أَحْيَاءٍ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ، عَلَى رِعْلٍ، وَذَكْوَانَ، وَعُصَيَّةَ، وَيُؤَمِّنُ مَنْ خَلْفَهُ "))(صحيح ابو داؤد 1/270,271)

    '' ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے متواتر ایک مہینہ ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور صبح کی ہر نماز مین جب اخیر رکعت میں سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو قنوت کرتے اور بنو سلیم کے چند قبیلوں رعل، ذکوان اور عصیہ پر بد دعا کرتے اور مقتدی آمین کہتے ''۔
    مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  مختلف حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے کبھی ایک نماز میں ، کبھی دو تین اور کبھی اکٹھی پانچ نمازوں میں قنوت کرتے تھے۔ تو ہمیں بھی حالات و واقعات کے تقاضے کے مطابق ایسا کرنا چاہئے اور یہ معاملہ اس وقت تک جاری ر ہے جب تک دشمنوں کی مکمل سر کوبی نہیں ہوتی اور مسلمانوں کے مسائل و آلام میں کمی واقع نہیں ہوتی ۔ صحیح مسلم میں سیدنا ابو ہریرہ  رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ :

((أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَنَتَ بَعْدَ الرَّكْعَةِ فِي صَلَاةٍ شَهْرًا، إِذَا قَالَ: «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ»، يَقُولُ فِي قُنُوتِهِ: «اللهُمَّ أَنْجِ الْوَلِيدَ بْنَ الْوَلِيدَ، اللهُمَّ نَجِّ سَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ، اللهُمَّ نَجِّ عَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ، اللهُمَّ نَجِّ الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ، اللهُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ، اللهُمَّ اجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ» قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: " ثُمَّ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرَكَ الدُّعَاءَ بَعْدُ، فَقُلْتُ: أُرَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ تَرَكَ الدُّعَاءَ لَهُمْ، قَالَ: فَقِيلَ: وَمَا تُرَاهُمْ قَدْ قَدِمُوا "))(1/270)

    '' نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک ماہ تک رکوع کے بعد قنوت کیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو پانی قنوت میں کہتے ۔ اے اللہ ولید بن ولید کو نجات دے۔ اے اللہ سلمہ بن ہشام کو نجات دے۔ اے اللہ عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے۔ اے اللہ ضعیف مومنوں کو نجات دے۔ اے اللہ اپنا عذاب قبیلہ مضر پر سخت کر ۔ اے اللہ ان پر یوسفؑ کے زمان جیسا قحط ڈال دے۔ ابو ہریرہ  رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں پھر میں نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیکھا کہ آپ نے دُعا کرنا چھوڑ دی تو لوگوں نے کہا تم دیکھتے نہیں جن کیلئے رسو اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  دُعا کرتے تھے وہ آ گئے ہیں ۔ یعنی کفار کے غلبہ سے انہیں نجات مل گئی ہے ۔ ''
    موجودہ حالات میں چونکہ مسلمان کئی ممالک میں ( بوسینا فلسطین، کمشیر، الجزائر وغیرہ ) سفاک و خونخوار دشمن کے ظلم و ستم اور جرب واستدباد کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور کئی ممالک میں مسلمان سالہا سال جو رو جفا کی چکی میں پس رہے ہیں توا نکی نصرت اور علائے کلمۃ اللہ کیلئے جب ہم جہاد بالسیف وغیرہ جیسی تدابیر کے ساتھ صف آراستہ ہیں تو ہمیں قنوت نازلہ جیسے مجرب ہتھیار سے بھی کام لینا چاہئے۔ تمام مسلمان اپنی نمازوں میں رکوع کے بعد سمع اللہ لمن حمدہ کہہ کر سجدے میں جانے سے قبل ان کیلئے دعا کریں۔ دُعا کرتے وقت امام مختلف ادعیہ جب پڑھے تو پیچھے مقتدی آمین کہتے جائیں جیسا کہ اوپرابوداؤد کے حوالے سے صحیح گذر چکی ہے قنوت نازلہ سے مقصو دمظلوم و مقہور مسلمانوں کی نصر و کامیابی اور سفاک و جابر دشمن کی ہلاکت و بربادی ہے اسلئے اس مقصد کو جو دعابھی پورا کرے وہ مانگی جا سکتی ہے ۔ امام نووی  نےشرح مسلم ١۱/۲۳۷٢ میں لکھا ہے کہ :

" والصحيح أنه لا يتعين فيه دعاء مخصوص بل يحصل بكل دعاء و فيه وجه  أنه لا يحصل إلا بالدعاء المشهورة أللهم اهدنى فيمن هديت  إلى أخره  والصحيح أن هذا مستحب لا شرط"

    '' صحیح بات یہ ہے کہ اس بارے میں کوئی مخصوص دُعا متعین نہیں بلکہ رہا س دُعا کو پڑھا جا سکتا ہے جس سے یہ مقصود حاصل ہوتا ہے اور اللھم اھدنی فیمن ھدیت آخرتک پڑھنا مستحب ہے شر ط نہیں ۔
    یاد رہے :اولیٰ اور بہتریہ ہے کہ یہ مذکورہ دُعا بھی پڑھی جائے اور اسکے بعد ہو دعائیں بھی پڑھی جائیں جو اسی معنی کی قرآن مجید اور حدیث نمبوی میں موجو دہیں مختلف دعائیں مانگنا صحابہ کرام  رضی اللہ تعالٰی عنہم اور سلف صالحین  رحمہ اللہ  سے ثابت ہیں جیسا کہ سیدنا ابی کعب  رضی اللہ تعالٰی عنہ جب رمضان لامبارک میں تراویح پڑھاتے تو ہنگامی حالات کے پیش نظر مخالفین اسلام کیلئے بد دعا کرتے پھر نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود اور مسلمانوں کیلئے استغفار کرتے تھے۔ امام ابن خزیمہ  رحمہ اللہ  کی صحیح ابن خیزمہ ۲/۱۵۵۔۱۵۶ کے حوالہ سے علامہ البانی حفظہ اللہ نے قیام رمضان /۳۲ پر لکھا ہے کہ :

(( وكان يلعن الكفرة فى النصف أللهم قاتل الكفرة الذين يصدون عن سبيلك و يكذبون رسلك ولا يؤمنون بوعدك  و خالف بين كلمتهم و ألق فى قلوبهم  الرعب وألق عليهم رجزك و عذابك إله الحق ثم يصلى على النبى صلى الله عليه وسلم و يدعوا للمسلمين بما استطاع من خير ثم يستغفر للمؤمنين))

    '' نصف رمضان میں کافروں پر لعنت کرتے اور کہتے اے اللہ ان کافروں کو جو تیرے راستے سےر کوتے ہیں اورتیرے رسولوں کی تکذیب کرتے ہیں اور تیرے وعدوں پر ایمان نہیں لاتے تباہ کر دے اور ان کے کلمات میں مخالفت ڈال دے اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دے اور ان پر عذاب و سزا ڈال دے ''
    پھر نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود پڑھتے اور مسلمانوں کیلئے اپنی استطاعت سے بھلائی کی دعا کرتے اور مومنوں کیلئے استغفار کرتے ۔

چند دعائیں قرآن و حدیث سے درج کی جاتی ہیں : پی ڈی ایف صفحہ 178

    نوٹ : ائمہ مساجد اور قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ کافروں سے بر سر پیکار دُنیا بھر کے مجاہدین کی نصرت و کامیابی اور ان کے مصائب میں کمی کیلئے اپنی نمازوں میں قنوت نازلہ کا اہتمام کریں اور جو لوگ جہاد میں شریک نہیں ، مجاہدین کی یہ اعانت ان پر فرض ہے ۔ 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے