بعض لوگ کہتے ہیں کہ بہت عرصہ پہلے انسان بندر تھا‘ پھر ترقی کرکے موجودہ صورت تک پہنچ گیا۔ کیا اس کی کوئی دلیل ہے؟
یہ بات صحیح نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آدم کی تخلیق کے جو مراحل ذکر کئے ہیں۔ وہ مندرجہ ذیل ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اللہ کے ہاں عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے۔ اسے اللہ نے خاک سے پیدا کیا۔‘‘
پھر یہ مٹی بھگوئی گئی حتی کہ وہ ہاتھوں سے چپکنے والے گارے کی صورت اختیار کر گئی۔ ارشاد ربانی ہے:
’’ہم نے انسان کو گارے کے خلاصے سے پیدا کیا۔‘‘
اور ارشاد ہے:
’’ہم نے انہیں چپکتے گارے سے پیدا کیا۔‘‘
پھر وہ سڑی ہوئی کیچڑ بن گیا۔ ارشاد ہے:
’’ہم نے انسان کوگلی سڑی کیچڑ سے (بنی ہوئی) کھنکتی مٹی سے پیدا کیا۔‘‘
یہ گارا جب خشک ہوجائے تو مٹی کے برتن کی طرح کھنکنے لگا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اس نے انسان کو ٹھیکری کی طرح بجتی مٹی سے پیدا کیا۔‘‘
اللہ نے اپنی مشیت اور ارادے کے مطابق اس کی صورت بنا کر اس میں جان ڈا ل دی۔ ارشاد ربانی ہے:
’’اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا: ’’میں گلے سڑے کیچڑ سے (بنی ہوئی) بجتی مٹی سے ایک انسان پیدا کرنے والا ہوں۔ تو جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کردوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے لئے سجدے میں گرجانا۔‘‘
یہ ہیں وہ مراحل جو ازروئے قرآن تخلیق آدم پر گزرے۔ اولاد آدم کی تخلیق کے مراحل اس آیت مبارکہ میں ذکر کئے گئے ہیں:
’’ہم نے انسان کو گارے کے خلاصے سے پیدا کیا‘ پھر ہم نے اسے ایک مضبوط جگہ میں (رکھا ہوا) ایک قطرہ بنا دیا۔ پھر ہم نے قطرے کو لوتھڑا بنایا‘ پھر لوتھڑے کو بوٹی بنایا‘ پھر بوٹی کو ہڈیاں بنایا‘ پھر ہڈیوں کو گوشت پہنایا‘ پھر ہم نے اسے ترقی دے کر ایک اور مخلوق بنادیا‘ برکتوں والا ہے اللہ جو سب سے بہترین تحلیق کار ہے۔‘‘
آدم کی اہلیہ حوالؐ کے متعلق اللہ نے بیان فرمایا ہے کہ انہیں آدم سے پیدا کیا گیا ہے۔ ارشاد ربانی تعالیٰ ہے: