السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
طلاق كا بيان احاديث كى روشنى میںِ بیان کریں
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
احادیث
قرآن مجید اور اس کی تفسیر کےبعد اب ہم ان احادیث پر گفتگو کریں گے جن سے ایک ہی مجلس کی اکٹھی تین دفعہ دینے کے جواز پرحجت پکڑی جاتی ہے ،ان میں سے چند احادیث درج ذیل ہیں ۔
1 - عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ تَطْلِيقَةً وَهِيَ حَائِضٌ ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُتْبِعَهَا بتَطْلِيقَتَيْنِ أُخْرََيْنِ عِنْدَ الْقُرْئَيْنِ الْبَاقِيَيْنِ فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " يَا ابْنَ عُمَرَ مَا هَكَذَا أَمَرَكَ اللهُ إِنَّكَ أَخْطَأْتَ السُّنَّةَ أَنْ تَسْتَقْبِلَ الطُّهْرَ فَتُطَلِّقَ لِكُلِّ قُرْءٍ " وقَالَ: فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَاجَعْتُهَا ثُمَّ قَالَ: " إِذَاھیی تطَهُرَ فَطَلِّقْ عِنْدَ ذَلِكَ أَوْ أَمْسِكْ " , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ لو کنت طَلَّقْتُهَا ثَلَاثًا كَانَ يَحِلُّ لِي أَنْ أُرَاجِعَهَا قَالَ: "لا كَانَتْ تَبِينُ َتَكُونُ مَعْصِيَةً.السنن الكبرى للبيهقى ج7 ص334
لوکنت طلقتھا ثلاثا کان یحل لی ا اراجعھا قال کانت تبین سے استدلال کیا جاتاہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے سے طلاق مغلظ پڑجاتی ہے ۔
(جواب )اول :اس ٹکڑے سے استدلال درست نہیں :کیونکہ یہ ٹکڑا اس مفہوم میں صریح نہیں۔کیونکہ طلقھا ثلاثا کا مفہوم تین بار طلاق بھی ہوسکتا ہے ۔
(جواب) دوم: اس ٹکڑے کی استنادی حالت بڑی مشکوک ہے کیونکہ یہ ٹکڑا باقی مستند روایات میں موجود نہیں ۔خود امام بیہقی نے کہہ دیا ہے کہ اس ٹکڑے کے راوی صرف شعیب ہیں ۔امام شوکانی تصریح کرتے ہیں وفی اسناد ھا شعیب بن رزیق الشامی وہو ضعیف ۔’’اس کی سند میں شعیب بن رزیق شامی ضعیف ،، اس طرح اس حدیث کی سند میں ایک عطاء خراسانی ہیں۔جنہیں امام بخاری،شعبہ ،ابن حبان نےضعیف اور سعد بن مسیب نے کذاب قرار دیاہے ۔مختصر یہ کہ یہ متکلم فیہ ہیں ۔لہذا یہ ٹکڑا معرض استدلال میں پیش کرنا درست ہی نہیں بلکہ علم حدیث سے ناواقفی ہے ۔کیونکہ حفاظ کی احادیث میں یہ الفاظ مذکور ہی نہیں ۔ہاں ،البتہ مسلم وغیرہ میں ابن رمح کی روایت میں ہے۔َإِنْ كُنْتَ طَلَّقْتَهَا ثَلَاثًا، فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَيْكَ، حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَكَ، وَعَصَيْتَ اللهَ فِيمَا أَمَرَكَ مِنْ طَلَاقِ امْرَأَتِكَ۔صحیح مسلم ج1ص 476۔صحیح بخاری میں بھی یہ روایت موجود ہے ۔مگر یہ اضافہ دراصل عبد اللہ بن عمر کا ذاتی فتویٰ ہے مرفوع نہیں۔علاوہ ازیں یہ ٹکڑا َإِنْ كُنْتَ طَلَّقْتَهَا ثَلَاثًا ایک مجلس میں تین طلاق دینے میں صریح نہیں َ طَلَّقْتَهَا ثَلَاثًا سے تین بار طلاق بھی ہو سکتی ہے ۔
2۔ قَالَ سَهْلٌ: فَتَلاَعَنَا وَأَنَا مَعَ النَّاسِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا فَرَغَا مِنْ تَلاَعُنِهِمَا، قَالَ عُوَيْمِرٌ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَمْسَكْتُهَا، فَطَلَّقَهَا ثَلاَثًا، قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،(1)صحیح البخاری باب من اجازطلاق الثلاث ج 2 ص791
اس حدیث کو اس بات کے ثبوت میں پیش کیا جاتاہے کہ جب حضرت عویمر عجلانی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یکجائی تین طلاقیں دے ڈالیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اس فعل پر کوئی نکیر نہیں فرمائی تو یکجائی تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں ۔
(جواب )سوم : مگر اس حدیث سے یہ استدلال کسی طرح صحیح نہیں کیونکہ لعان کے بعد از خود تفریق ہوہی جاتی ہے ۔اور لعان کے بعد رجوع کی گنجائش ہی کہاں باقی رہتی ہے اور نہ کسی صورت میں دوبارہ نکاح کرنے کی ۔حالانکہ طلاق مغلظہ بائنہ کے بعد جب عورت کسی دوسرے مرد سے بسنے کی نیت سے نکاح کرے اور پھر دوسرا خاوند فوت ہوجائے یا وہ کسی پیشگی شرط (حیلہ ملعونہ ) کے بغیر اپنے طور پر طلاق دے دے تو عورت عدت گزار کر اپنے پہلے خاوند سے شرعا نکاح کرکے آباد ہوسکتی ہے ۔پس حضرت عویمر نےجو تین طلاقیں دیں وہ محض تو کید اور توثیق کے لئے تھیں گویا انہوں نےاپنی صداقت اور غیرت کے ثبوت میں یہ طلاقیں دی تھیں ۔ورنہ لعان میں اس کے بغیر ہی تفریق ہو جاتی ہے ۔اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا روائی کا عبث قرار دے کر اس پر کوئی نکیر نہیں فرمائی ہوگی ۔چنانچہ امام ابن قدامہ الحنبلی ارقام فرماتے ہیں : اما حدیث المتلا عنین فغیر لازم لان الفرقة لم تقع بالطلاق فإنھا وقعت بمجرد لعانما. .(2)المنغنی ج7ص103.
’’رہی لعان والی حدیث تواس سے یہ لازم نہیں آتا کہ جدائی طلاق کی وجہ سے ہوئی تھی کیونکہ جدائی تو مجردلعان سے ہوئی۔،،
اس لئے طلاق ایک ہو یا تین سب بے ضرورت تھیں ۔رہی یہ بات کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت عویمر عجلانی کو ٹوکا کیوں نہیں ۔تو سرخیل علمائے احناف شمس الائمہ سرخسی نےمبسوط میں اس کےدو جواب دیےہیں ۔ فرماتے ہیں :إنما ترک الإنکار علی العجلانی فی الوقت شفقة علیه لعلمه أنه بشدة الغضب بما لا یقبل قوله فیکفر فاخر الانکار إلی وقت اخر وانکر علیه فی قوله فلا سبیل لک علیھا او کرھة ایقاع الثلاث لما فیه من سد باب التلافی من غیر حاجته وذلک غیر موجود فی حق العجلانی لأن باب التلافی بین المتلاعنین منسد ماداما مصر ین علی اللعان والعجلانی کان مصیر علی اللعان.
اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےعجلانی کو ٹوکا نہیں ۔یہ بات شفقت کی بناپر تھی۔ کیونکہ شدت غضب کی بنا پر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات شاید قبول نہ کرتا اور کافر ہو جاتا ۔اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے (مناسب ) وقت کے لئے ٹوکنے کو مؤخر رکھا اور اتنا فرما دیا کہ تجھے اب اس پر کوئی اختیار نہیں ۔یا یہ بات موجود نہیں کیونکہ لعان کرنے والے جب لعان پر مصر ہوں تو
تلافی کا دروازہ بند ہوتاہے اور عجلانی لعان پر مصر تھے۔
علامہ انور شاہ کاشمیر ی حنفی نےاس حدیث پر گفتگو کرے ہوئے ایک اور جواب دیا ہے وہ فرماتے ہیں :أولا فان التطابق بین الحکایة والمحکی عنه فی الصفة لیس بضروری یمکن إن طلقھا فی الخارج متفرقا وعبر عنه الروای ثلاثا اخذ ا بالحاصل ولا بعد فیه.
پہلا جواب یہ ہے کہ صورت واقعہ اور اس بیان کے درمیان صفت واقعہ میں مطابقت ضروری نہیں ۔یہ ہو سکتا ہےکہ عجلانی نے تین طلاقیں الگ الگ دی ہوں اور راوی نےبطور حاصل کے انہیں تین کہہ دیا ہو اور اس میں کوئی بعد نہیں ۔(فیض الباری)جناب انو ر شاہ کےاس جواب سے بہت سی متعلقہ احادیث کو صحیح طور پر سمجھا جاسکتاہے ۔
3۔ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لُبَيْدٍ قَالَ: «أُخْبِرَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثَ تَطْلِيقَاتٍ جَمِيعًا فَقَامَ غَضْبَانَ ثُمَّ قَالَ: أَيُلْعَبُ بِكِتَابِ اللَّهِ وَأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ، حَتَّى قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا أَقْتُلُهُ؟وفی بعض روایات وامضاء علیه ولم یرده ۔النسائی
(جواب )چہارم :بعض روایات کا یہ ٹکڑا جو محل استدلال ہے ثابت نہیں۔مزید یہ کہ ہر چند حضرت محمود بن لبید عہد نبوی میں تو لد ہوئے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کاسماع محل نظر ہے ۔امام ابن کثیر سرے سے حدیث کو منقطع ٹھہراتے ہوئے فرماتے ہیں:فیہ انقطاع یہ روایت منقطع ہے ۔تفسیر ابن کثیر ج1 ص 477۔
4۔ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: طَلَّقَ جَدِّي امْرَأَةً لَهُ أَلْفَ تَطْلِيقَةٍ، فَانْطَلَقَ أَبِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَا اتَّقَى اللَّهَ جَدُّكَ، أَمَّا ثَلَاثٌ فَلَهُ، وَأَمَّا تِسْعُ مِائَةٍ وَسَبْعَةٌ وَتِسْعُونَ فَعُدْوَانٌ وَظُلْمٌ، إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى عَذَّبَهُ، وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ۔(مصنف عبد الرزاق)
(جواب )پنجم : یہ حدیث سندا بے حد ضعیف ہونےکی وجہ سے لائق استدلال نہیں ۔اس کے کچھ راوی ضعیف ہیں اور کچھ مجہول اس حدیث کی سند یہ ہے :
عن یحییٰ بن العلاء عن عبد اللہ بن الولید الوصافی عن ابراھیم بن عبادة بن الصامت عن داؤد عن عبادة بن الصامت قال طلق جدی .
أجیب بان یحیی بن العلاء ضعیف وعبداللہ بن الولید ھالک وابراھیم بن عبد اللہ مجھول فای حجة فی روایة ضعیف عن ھالک عن مجھول ثم والد عبادة بن الصامت لم یدرک الاسلام فکیف بجدہ(1)نیل الاوطار ج6ص 232.
5۔وحَدَّثَنِي حَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِح، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنِ الْبَهِيِّ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، قَالَتْ: «طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا، فَلَمْ يَجْعَلْ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُكْنَى، وَلَا نَفَقَةً» (صحيح مسلم )
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ایک مجلس کی تین طلاق دینےسے طلاق مغلظ پڑجاتی ہے ،ورنہ رجعی طلاق پڑتی تو بالاتفاق نفقہ کی حقدار ہوتیں۔
(جواب) ششم :اس حدیث سے زیر بحث مسئلہ کےاثبات میں استدلال صحیح نہیں کیونکہ ثلاثا کا لفظ اس مطلب کے لئے صریح نہیں کہ یکجائی تین طلاقیں دی ہوں ۔مز ید یہ اس حدیث کی دوسری روایات میں یہ تصریح موجود ہے کہ اس سے پہلے دو طلاقیں ہوچکی تھیں اور یہ آخری اور تیسر ی طلاق تھی وہ روایت یہ ہے :
عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَخْبَرَهُ، أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ، أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ أَبِي عَمْرِو بْنِ حَفْصِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، فَطَلَّقَهَا آخِرَ ثَلَاثِ تَطْلِيقَاتٍ،
صحیح مسلم ہی میں ایک اور روایت بایں الفاظ آج بھی موجود ہے :
عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ أَبَا عَمْرِو بْنَ حَفْصِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، خَرَجَ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ إِلَى الْيَمَنِ، فَأَرْسَلَ إِلَى امْرَأَتِهِ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ بِتَطْلِيقَةٍ كَانَتْ بَقِيَتْ مِنْ طَلَاقِهَا۔ (1)صحیح مسلم ج1 ص 484.
ان دونوں صحیح احادیث سے ثابت ہواکہ یہ تیسر ی طلاق تھی نہ کہ اکٹھی تین طلاقیں تھیں ۔اور اصول حدیث کا مسلمہ قاعدہ الحدیث یفسر بعضہ بعضا کے مطابق پہلی حدیث طلقنی زوجی ثلاثا مجمل ہے اور یہ دونوں احادیث مفصل ہیں ۔
6۔ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ، أَخْبَرَتْهُ: أَنَّ امْرَأَةَ رِفَاعَةَ القُرَظِيِّ جَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ رِفَاعَةَ طَلَّقَنِي فَبَتَّ طَلاَقِي، وَإِنِّي نَكَحْتُ بَعْدَهُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ القُرَظِيَّ، وَإِنَّمَا مَعَهُ مِثْلُ الهُدْبَةِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَعَلَّكِ تُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ؟ لاَ، حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ وَتَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ. (2) صحیح البخاری :باب من طلاق الثلاث الخ ج1ص791.
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ رفاعہ نےاپنی بیوی کو طلاق بتہ دی تھی ۔جس کو تین طلاقیں تصور کیاگیا اور اس کے نتیجہ میں حضرت رفاعہ پر وہ حرام ہوگئی ۔
(جواب)ہفتم :شیخ الاسلام حافظ ابن حجر صحیح البخاری کی شرح فتح الباری میں اس بو دے استدلال پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ؟
واستدل بقولھا بت طلاقی علی ان البتة ثلاث تطلیقات وھو عجب ممن استدل به فان البتة بمعنی القطع والمرادبه قطع العصمة وھو اعم من ان یکون الثلاث مجموعة او بوقوع الثالثة التی ھی اٰخر ثلاث تطلیقات وسیاتی فی اللباس صریحا انه طلقھا اٰخر ثلاث تطلیقات فبطل الاحتجاج .(فتح البارئ ج9ص468 باب اذا طلقها ثلاثاثم فزوجت بعد العدة زوجها غيره فلم يمسها)
اس روایت میں پہلے فبت طلاقھا کہا ،پھر اس کی وضاحت فطلقھا آخر ثلاث تطلیقات (تواسے آخری تیسر ی طلاق دے دی ) سے کردی لہذا ثابت ہوا کہ اس حدیث کا مسئلہ زیر بحث سے کوئی تعلق نہیں ۔
7۔ عَنْ رُكَانَةَ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ، فَأَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: مَا أَرَدْتَ، قَالَ وَاحِدَةً، قَالَ آللَّهِ قَالَ آللَّهِ وَاحِدَةً قَالَ هُوَ مَا أَرَدْتَ قَالَ أَبُو دَاوُدَوَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ جُرَيْجٍ أَنَّ رُكَانَةَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا، لِأَنَّهُمْ أَهْلُ بَيْتِهِ، وَهُمْ أَعْلَمُ بِهِ، وَحَدِيثُ ابْنِ جُرَيْجٍ رَوَاهُ عَنْ بَعْضِ بَنِي أَبِي رَافِعٍ.
(جواب )نہم: یہ حدیث در حقیقت ضعیف ہےامام ابو داؤد کا اس کو ابن جریح کی حدیث کے مقابلہ میں واضح کہنا اس صحیح قرار دینا صحیح نہیں۔کیونکہ ابو داؤد جس کہہ رہے ہیں وہ بھی ضعیف ہے اس کا ایک روای زبیری بن سعید ہے :
قال الترمذی لانعرفه الا من ھذا الوجہ وسالت محمد بن اسماعیل عن ھذا الحدیث فقال فیه اضطراب ھذا آخر کلامہ وفی اسناد ہ الزبیر بن سعید الھاشمی وقد ضعفه غیر واحد وقال احمد ان طرقہ ضعیفہ قد وقع الاضطراب فی اسنادہ ومتنه. (3) عون المعبود ج2ص 232.
دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ دوروایتیں دو علیحدہ علیحدہ واقعات کے متعلق ہیں ۔پہلی روایت رکانہ کے والد عبد یزید کے بارے میں ہے ۔ملاحظہ ہو عون المعبود ج 2 ص 226 اور دوسری رکانہ کی اپنی طلاق کے متعلق ہے ملاحظہ ہو عون المعبود ج2ص 231۔مزید تفصیل عون المعبود میں حافظ ابن قیم کے حوالہ سےملاحظہ فرمائیں۔
مختصر یہ کہ بو داؤد کی روایت مضطرب بھی ہے اور ضعیف بھی اس لئے وہ قابل استدلال نہیں ۔مسند احمد کی رکانہ والی حدیث جوآگے آرہی ہے جس میں طلاق بتہ کے بجائے طلاق ثلاثہ کا ذکر ہے وہ صحیح ہے ۔
8۔ عَنْ عَلِيٍّ , قَالَ: سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا طَلَّقَ الْبَتَّةَ فَغَضِبَ , وَقَالَ: «تَتَّخِذُونَ آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا , أَوْ دِينَ اللَّهِ هُزُوًا وَلَعِبًا , مَنْ طَلَّقَ الْبَتَّةَ أَلْزَمْنَاهُ ثَلَاثًا لَا تَحِلُّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ. 1)دار قطنی مع المغنی ج 4ص20
(جواب) دہم : یہ حدیث ضعیف ہے ،لہذا اسے زیر بحث مسئلہ میں پیش کرکے استدلال کرنا صحیح نہیں ۔امام دار قطنی خود فرماتے ہیں ۔ إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ القرشی ضَعِيفُ متروک الْحَدِيثِ۔۔ کہ اس روایت کا راوی اسماعیل بن امیہ القرشی ضعیف اور متروک ہے ،یہ جھوٹی حدیثیں تیار کرتا ہے۔ اسکا ایک دوسرا راوی عثمان بن قطر ہے ،ابن معین نے اس کے بارے میں فرمایا لا یکتب حدیثہ اسی کی حدیث نہیں لکھی جاتی ۔ابن حبان نےکہا : یروی موضوعات عن الثقات ثقہ لوگوں سے موضوع حدیثیں روایت کرتا ہے۔
اس حدیث کا تیسرا راوی عبد الغفور ہے ان کے بارے علامہ محمد طاہر پٹوی نےکہا ہے یضع الحدیث ۔حدیث گھڑتاہے ۔امام ابن تیمیہ اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں فی اسنادہ ضعفاء ومجاھیل ۔ پس ایسی سخت ضعیف سے استد لال کرنا طفل تسلی سے زیادہ کچھ نہیں ۔
9۔ عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ قَالَ: كَانَتْ عَائِشَةُ الْخَثْعَمِيَّةُ عِنْدَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَلَمَّا قُتِلَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَتْ: لِتَهْنِئْكَ الْخِلَافَةُ، قَالَ: بِقَتْلِ عَلِيٍّ تُظْهِرِينَ الشَّمَاتَةَ اذْهَبِي فَأَنْتِ طَالِقٌ، يَعْنِي ثَلَاثًا قَالَ: فَتَلَفَّعَتْ بِثِيَابِهَا وَقَعَدَتْ حَتَّى قَضَتْ عِدَّتَهَا فَبَعَثَ إِلَيْهَا بِبَقِيَّةٍ بَقِيَتْ لَهَا مِنْ صَدَاقِهَا وَعَشَرَةِ آلَافٍ صَدَقَةً، فَلَمَّا جَاءَهَا الرَّسُولُ قَالَتْ( مَتَاعٌ قَلِيلٌ مِنْ حَبِيبٍ مَفَارِقٍ) فَلَمَّا بَلَغَهُ قَوْلُهَا بَكَى ثُمَّ قَالَ: لَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ جَدِّي أَوْ حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّهُ سَمِعَ جَدِّي يَقُولُ: " أَيُّمَا رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا عِنْدَ الْأَقْرَاءِ أَوْ ثَلَاثًا مُبْهَمَةً لَمْ تَحِلَّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ " لَرَاجَعْتُهَا "(وَكَذَلِكَ)رُوِيَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شِمْرٍ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ مُسْلِمٍ . ۔(2)السنن الکبریٰ للبیھقی ج7 ص 23ودار قطنی(ج4ص3.
اس کاجواب ۔مگر یہ روایت بھی سخت ضعیف ہونے کی وجہ سے مسئلہ زیر بحث میں اس سے استدلال کرنا کسی طرح بھی صحیح نہیں ۔اس حدیث کو حافظ بیہقی نے دو سندوں سے ذکرکیا ہے ۔ان کے متعلق علماء جرح وتعدیل کی آراء پڑھ لیجئے اور پھر فرمائے کہ یہ روایت حجت ہو سکتی ہے ، پہلی سند کا ایک راوی محمد بن حمید الرازی کے بارے میں امام بخاری فرماتے ہیں ۔فیہ نظر وکذبہ ابو ذرعۃ وعن الکو سج قال اشھد انہ کذاب قال صالح مارایت اجرا علی اللہ منہ کان یاخذ احادیث الناس فینقلب بعضہ بغضا . (3) تھذیب التھذیب ج 4ص 135.
دوسرا راوی سلمہ بن فضل القرشی ہے ۔
قال ابو حاتم منکر الحدیث وقال ابو ذرعۃ قال علی خرجنا من الری حتی ٰ رمینا
بحدیثہ . (1)تھذیب التھذیب ،ج7،113.دوسری سند کےایک ہی راوی کاحال بیان کرنا ہی کافی ہے ۔عمران بن مسلم قال ابو احمد الزبیری الرارافضی کانه جرو کلب ۔جرو کامعنی پلہ اور کلب کامعنی کتا فقرہ خود جوڑ لیجئے۔
یہ ہیں وہ احادیث جن سے یکجائی تین طلاقوں کو طلاق مغلظہ بائنہ قرار دینے کے لئے کھینچاتانی کی جاتی ہے ۔آپ نے دیکھا اس زیر بحث مسئلہ کے بارے میں کوئی صحیح تصریح غیر مبہم حدیث موجود نہیں جو صحیح ہیں وہ صریح نہیں اور جو صریح ہیں انکا مسئلہ زیر بحث کے ساتھ کو ئی تعلق نہیں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب