السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قربانی حجاج کرام سے تشبیہ ہے۔؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ تو تھی رسول اللہ ﷺ سے قربانی کے قولی و عملی ثبوت کی بحث اور یہ ایک مومن کے لیے سمعنا و اطعنا کہنے کو بالکل کافی ہے ۔لیکن اس موضوع پر گفتگو صرف ایک خشک ثبوت اور ضابطہ کی کاروائی پر ختم نہیں ہو جاتی ہے بلکہ اسلام میں قربانی کے اجرا کا جو پس منظر صدر میں بیان کیا گیا ہے اسے اگر نگاہ میں رکھیے تو یہ بات بڑی صحیح اور وجدان و فطرت کا عین تقاضا نظر آتی ہے کہ قربانی کا یہ حکم حجاج کی تعداد تک ہی محدود نہیں ہونا چاہیے تھا ۔ بلکہ پوری امت مسلمہ جس کی اکثریت حج کی استطاعت نہیں پاسکتی ، اس سبھی کو اسلام کامل کا رمز رکھنے والے اس عمل سے بہرہ اندوز ہونے کا موقع ملنا چاہیے تھا ۔ بالفاظ دیگر اگر ابراہیمی انداز کی قربانی ہی وہ عمل ہے جس سے اسلام کی اصل کیفیت ظاہر ہوتی ہے اور اسی عمل کو اپنے کرنے کی حد تک کر گزرنے پر ابراہیمی کیش و ملت کو اسلام کا نام ملا ۔ تو اس کیش و ملت کے پیرووں میں اس کی حقیقی روح سدا برقرار رکھنے کے لیے اگر یہ مناسب اور تقاضائے عقل و فطرت تھا کہ اس جذبہ ابراہیمی کا کوئی رمز ملت ابراہیمی میں مستقل طور سے ودیعت کردیا جائے اور کوئی ایسا عمل جو اس جذبے اور شیوہ تسلیم و رضا کا غماز ہو ، مشروع کر کے مستقل جز و ملت بنا دیا جائے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ اس تشریع کو حجاج ہی تک محدود رکھا جاتا ۔ جن کی تعداد اور امت مسلمہ کے پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے بڑی تھوڑی تھی ۔ دل کہتا ہے کہ بالکل یہی ہونا چاہیے تھا کہ اگر حجاج کو دس باتوں سے اپنے امام اپنے پیشوا ( ابراہیم ) کے جذبہ فدائیت کے اظہار کی سعادت ملے و ہ لبیک کہتے ہوئے معبود کے در اقدس پر پہنچیں ، اس کے گھر کا طواف پر طواف کر کے اپنا پورا وجود نثار کر دینے کا اشارہ کریں ، حجر اسود کو چوم کر آنکھوں سے لگا لگا کر چشم تصور میں خود اس کی دست بوسی کریں اور اشک ہائے عبدیت کی نذر اتار کر تسلیم وفا کا بھرپور اظہار کریں ، کبھی ملتزم سے چمٹ کر روئیں اور گڑ گڑائیں اور کبھی صفا و مروہ کے درمیان دوڑیں کہ اے رب ابراہیم 6 ! تو کہاں ہے ؟ کہ اب یہ سرد بال دوش اور دم تیرے قدموں پر نکلنے کے لیے بے تاب ہے ۔ کبھی عرفات کے میدان میں حسرتیں نکالنے کی کوشش کریں ، اور پھر بھی تسکین تمنا نہ ہو تو منی جا پہنچیں اور اپنے امام پیشوا کی اقتدا میں کسی دوسری ہی جان کا نذرانہ پیش کر کے ایک گونہ تسکین کا سامان مہیا کرلیں ۔ بے شک یہ اتنا بہت تو حجاج ہی کا حصہ ہے ۔ ہم نہیں پہنچ سکے تو لبیک لبیک کیا کہیں ؟ خانہ کعبہ ایک ہی ہے تو اس دور رہ کر طواف کا ہے کا کریں ملتزم ہمیں نصیب نہیں حجر اسود سے ہم دور کہ دست بوسی کا رمز پیدا کرسکیں ، صفا و مروہ کے دامن تک ہمیں رسائی نہیں کہ جوش جنون دکھا سکیں لیکن دل کہتا ہے کہ اگر حجاج کو یہ دس باتیں نصیب ہیں تو وہ ہم بے نصیبوں کے حصہ میں بھی آجانی چاہئیں ، ہم ہزار کوتاہ دست و شکستہ پاسہی کہ اپنے امام و پیشوا کی اذان حج پر لبیک نہ کہہ سکے مگر امت مسلمہ میں تو ہم بھی ہیں ہمارے اندر بھی اسلام کی حقیقی روح برقرار رکھنے کا کچھ نہ کچھ سامان ضروری ہے ۔ دل کی یہی آواز اور امت مسلمہ کی فطرت کی یہی خاموش پکار تھی ۔ جس کے جواب میں خدا نے اپنے رسول کے ذریعے اعمال حج کا ایک حصہ اور حجاج سے ایک گونہ تشبہ کا سامان پوری امت کو بقدر استطاعت نصیب فرما دیا۔
حج والی قربانی کو حج سے باہر بھی جاری کرانے کا یہی فلسفہ ہے جسے عقل بھی تسلیم کرتی ہے اور فطرت بھی اس کی معقولیت پر شہادت دیتی ہے ۔ ہم میں سے ارباب استطاعت کو موقع دیا گیا ( فقہ کی اصطلاح میں وجود کے لیے یا سنت ) کہ وہ اپنے گھروں ہی پر رہتے ہوئے ابراہیم خلیل اللہ کی سنت قربانی کو ہر سال تازہ کر کے اس مرموز جذبہ ابراہیمی کی زندگی اور تازگی کا سامان کریں جو اسلام کی اصل اور اس کی روح و جان ہے ۔ باقی کو بھی محروم نہیں رکھا گیا کہ عرفات کا والہانہ اجتماع نماز عید کی متبادل شکل میں عطا کر دیا گیا اور ایسا نہ ہو کہ جو نہ قربانی کرسکے نہ عید کی نماز میں پہنچ سکیں وہ ملت اسلامی کی تاسیس کے ان تاریخی ایام میں جو روح اسلام کی بالیدگی کے لیے قدرتی طور پر نہایت سازگار ہیں ۔ اس روح کی آب یاری کے کسی سامان سے بالکل ہی محروم رہ جائے ، اس لیے تیسری آسان ترین چیز یہ عطا کی گئی کہ 9 ذی الحجہ سے 13 ذی الحجہ تک ہر فرض نماز کے بعد اللہ کی تکبیر و تحمید کا غلغلہ بلند کرو ۔ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ
پس اللہ کی رحمت اور سلام اس نبی پر جس کے صدقہ میں پوری امت مسلمہ کو اپنے امام و پیشوا کی سنت نصیب ہوئی ۔
بہ مصطفیٰﷺ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ اونہ رسیدی تمام بولیبی ست
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب