السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قربانی کی حقیقت اور بعض اعتراضات کا جائزہ بيان ہے ۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ قَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا هَذِهِ الأَضَاحِىُّ قَالَ « سُنَّةُ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ »
زید بن ارقم ( صحابی) سے روایت ہے کہ اصحاب رسول اللہ نے آپﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ عید کی قربانی کیا ہے ؟ ارشاد ہوا کہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔
اللہ کے لیے قربانی ملت ابراہیمی علیہ السلام کی روح ہے ۔ یہ قربانی زندگی کے ہر موڑ اور ہر ہر گوشہ میں قربانی ہی وہ طرہ امتیاز ہے جس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل اللہ بنایا ، علیہ وعلی انبیاء الصلوۃ والسلام ۔ سب سے پہلے محبت پدری کی قربانی دی اور باپ کی زبان سے اللہ کے لیے :
﴿...لَئِن لَّمْ تَنتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ ۖ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا ﴿٤٦﴾...مريم
اگر تو ( اس دعوت توحید سے ) باز نہ آیا تو میں تیرا سر پھوڑ دوں گا ۔ چل میرے پاس سے دفعہ ہو جا۔ جیسے الفاظ سنے پھر
﴿سَلَامٌ عَلَيْكَ ۖ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي ۖ إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيًّا ﴿٤٧﴾وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ ...٤٨﴾...مريم
تم سلام رہو ۔ میں تمہارے لیے اپنے رب سے معافی چاہوں گا کہ وہ مجھ پر بڑا مہربان ہے اور تمہیں اور تمہارے معبودوں کو چھوڑ کر الگ ہو جاؤں گا۔
کہتے ہوئے ، جیتے جی باپ کے سایہ عاطفت سے محروم ہو گئے۔
باپ کے ساتھ ساتھ سارے اہل وطن دشمن جان ہو گئے تو اپنے وجود کی ہی قربانی کا سوال سامنے آگیا اور ساری خدائی نے دیکھا کہ
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
یہ مرحلہ عشق طے ہوا تو اب وطن کو خیر باد کہنے کی باری تھی قربانی کا ابراہیمی جذبہ اس گھاٹی کو بھی ہنستے کھیلتے پار کر گیا اور اب باہل کی بجائے ارض کنعان اس دولت عشق کی وارث ہو ئی ۔یہاں بڑھاپے کی عمر میں پہنچ کر پہلی اولاد عطا ہوئی تو عہد شیر خوارگی ہی میں حکم ملا کہ اس کو اور اس کی ماں کو ( مکہ کی ) وادی غیر ذی زرع میں چھوڑ آؤ۔ عشق کا یہ مرحلہ بھی بلا حیل و حجت طے ہوا ۔ یہ قربانی ہی کیا کم تھی مگر اللہ کی دوستی اس سے بھی زیادہ مہنگی تھی ۔ اور نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز ۔ کی صدا ابھی تھمنے کا وقت نہیں آیا تھا ۔
چند سال بیتے اور اس وادی غیر زرع میں پلنے والے اکلوتے فرزند کی عمر اتنی ہو گئی کہ : ﴿فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ ... ﴿١٠٢﴾...الصافات
بوڑھے باپ کا کچھ تو ہاتھ بٹانے کے قابل ہو گئے۔
تو قربانی کے اس مرحلے کا سامان بھی ابراہیم ہی کے لیے ہو گیا ۔ جس کے بعد اس بارگہ والا سے بھی ارزانی ہنوز کی نہیں ﴿إِنَّ هَـٰذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ ﴿١٠٦﴾ ... الصافات’’ بے شک یہ بڑی کھلی ہوئی جانچ تھی ۔‘‘ کی صدائے اعتراف اٹھی۔
ابراہیم علیہ السلام نے ایک خواب سے سمجھا کہ بیٹے کی قربانی کا حکم دیا جا رہا ہے ۔ شرح صدر ہوگیا ۔ تو نہ باپ جھجکانہ بیٹا کسمسایا اور ساری خدائی نے دم بخود ہو کر یہ ماجرہ دیکھا کہ بیٹا منہ کے بل زمین پر ہے اور باپ کی چھری بیٹے کی گردن پر ، لیکن خدا کو اسماعیل کی قربانی مطلوب نہ تھی ۔ ابراہیم کا دل دیکھنا یا کہیے کہ محبت کا مرحلہ طے کرانا مقصود تھا ۔ وہ طے کرادیا گیا اور ابراہیم کے جذبہ عبدیت و فدائیت کی صداقت کو آزمالیا گیا تو قبل اس کے کہ چھری اپنا کام کرے ۔ پکار آئی : ﴿يَا إِبْرَاهِيمُ ﴿١٠٤﴾قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ’’ اے ابراہیم ( بس ! بس !!) تو نے اپنا خواب سچا کر دکھایا اب تیرا بیٹا تجھے مبارک ہو ۔‘‘
﴿إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴿١٠٥﴾... الصافات’’ ہم صادقین و محسنین کو اسی انداز سے جزا دیتے ہیں ۔‘‘ الصفت 105
پے درپے آزمائشوں کے سلسلہ کی یہ وہ آخری آزمائش تھی ۔ جس میں پورا اترنے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نوع انسانی کی امامت کا مژدہ سنایا گیا ۔قرآن کا بیان ہے ﴿وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا﴾ ( بقرہ : ع 25) اور جب آزمایا ابراہیم کو اس کے رب نے متعدد باتوں میں وہ ان میں پورا اترا ، فرمایا میں بناؤں گا تجھے بنی آدم کا امام۔
یہی امامت تھی جس کا کامل ظہور اس طرح ہوا کہ آپ کی نسل میں محمد رسول اللہ ﷺ کو تمام نوع انسانی کا رسول بنا کر مبعوث کیا گیا اور اس کے لیے وہی طریقہ اور وہی دین پسند کیا گیا جو ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ اور ان کا اسوہ تھا ۔ چنانچہ قرآن میں رسول اللہ ﷺ کی زبان سے کہلایا گیا۔
﴿إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۚ ... ﴿١٦١﴾ ...الأنعام
’’ آپ کہہ دیجیئے کہ مجھے سمجھائی ہے میرے رب نے سیدھی راہ یعنی دین قیم جو طریقہ ہے ابراہیم حنیف کا ۔‘‘ اور اس ابراہیمی کیش و ملت کو تمام نوع انسانی کے لیے اسوہ ٹھہرا دیا گیا ۔ امت محمدی کے اولین طبقہ کو جو نزول قرآن کے وقت داخل اسلام ہو چکا تھا خطاب کر کے فرمایاگیا:
﴿هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ۚ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ ۚ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ ... ﴿٧٨﴾...الحج
اس ( اللہ ) نے تم کو منتخب کیا ہے
اور نہیں کی ہے دین میں تمہارے اوپر کوئی تنگی ، تمہارے باپ ابراہیم ہی کی ملت ہے ، اسی نے رکھا ہے نام تمہارا مسلمان ۔ پس وہ ابراہیمی کیش وملت جس کی روح ہی قربانی ہے اور جس کو اسلام کا نام ہی اس عظیم آخری قربانی کے سلسلہ میں دیا گیا ہے ، جیسا کہ سورۃ الصفت 102 میں اسی موقع پر ہے ۔
﴿فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ ﴿١٠٣﴾...الصافات
’’ پس جب ان دونوں باپ بیٹوں نے کمال اطاعت ( اسلام) کا مظاہرہ کر دیا اور ابراہیم نے اسماعیل کو پیشانی کے بل ڈال دیا ۔ ‘‘الخ
یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ اس کیش وملت میں کوئی مستقل نشان اس عظیم قربانی کا نہ ہوتا اور جس بنیاد پر اسے اسلام کا نام دیا گیا تھا ۔ مابعد میں اس بنیاد کی کوئی نہ کوئی یادگار اس ملت کے خاکہ میں مستقل جگہ نہ پاتی اور قربانی پیش کرنے کی کوئی نہ کوئی شکل اسلام کا دائمی اشعار قرار نہ دی جاتی ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر خود حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھ سے قربانی کی شکل متعین کرائی کہ اسماعیل کی قربان گاہ پر اسی چھری سے ایک مینڈا ذبح کرایا ۔ اور ہر سال اسی دن اس عمل کے نہایت عظیم اور عالمگیر پیمانہ پر اعادہ کو ملت ابراہیمی کا جز بنا دیا ۔ امام ابن جریر طبری نے حضرت حسن بصری سے نقل کیا ہے :
انه كان يقول ما يقول الله وفدينا عقطيلد بيحته التي فقط والسكته الذلج علي دينه فتلك السنة الي يوم القيمة
کہ وہ فرمایا کرتے تھے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ﴾ صرف اس خاص ذبیحہ سے متعلق نہیں ہے جو ابراہیم علیہ السلام نے کیا تھا ۔ بلکہ اس میں ذبح عظیم سے مراد وہ عظیم رسم قربانی ہے جو اس ابراہیمی طریق پر ادا کی جاتی رہے گی ، پس معلوم ہوا کہ یہ قیامت تک کے لیے سنت جاری کر دی گئی ہے ۔
اسی طرح اشارہ کرتے ہوئے پیغمبر آخر الزمان نے جو دین حنیفی اور ملت ابراہیمی کے پیامبر تھے ۔ بقر عید کی قربانی کے سلسلہ میں اپنے اصحاب کو بتایا کہ یہ تمہارے باپ ابراہیم کی سنت ہے اور تلقین کی کہ ان میں کاہر ذی استطاعت اسی سنت کی پیروی میں ذوق و شوق سے حصہ لے ۔
اب سمجھ میں آتا ہے قربانی کے بارے میں اس قسم کی احادیث کا مطلب یا زیادہ صحیح الفاظ میں ان کا راز جن میں آتا ہے کہ قربانی کے دن ابن آدم کا کوئی عمل اللہ کو اتنا محبوب نہیں جتنا خون بہانے کا عمل ہے ۔ یہ خون جو تم بہاتے ہو ، قبل اس کے کہ زمین پر گرے ، اللہ کے حضور میں گرتا ہے ۔ یعنی مرتبہ قبول پاتا ہے ۔ ( ترمذی مشکوۃ ، ص 128)
جس قربانی کی یہ تاریخ ہو کہ اس کی طرح خود خداوند قدوس نے اپنے خلیل کے ہاتھوں ڈھلوائی ہو ۔ اور وہ عظیم عمل کی یادگار اور مژدہ ہو ، جس کی عظمت کا اعتراف قد صدقت الرؤیا کہہ کہ اس دربار عالی سے برملا کیا گیا ہو ، جس کی عظمت و کبریائی کے آگے ابن آدم کی بڑی سے بڑی پیش کش ہیچ وحقیر ہے ۔ جس کو کمال اطاعت و اسلام ( اسلما) سے تعبیر کر کے اس کا درجہ قبولیت بھی اس عظیم ہستی ہی کی طرف سے دنیا پر عیاں کردیا گیا ہو ۔ جس کی شان بے نیازی کو جاننے والا انسان عمر بھر کی اطاعت گزاری پر اطمینان نہیں کر پاتا کہ کوئی درجہ قبولیت اس کو اس بارگاہ عالی میں مل پائے گا۔ سچ کہیے کہ اگر اس تاریخ قربانی والے دن میں اللہ کو ابن آدم کا کوئی عمل اس درجہ پسند نہیں جتنا یہ قربانی اور اہراق دم والا عمل پسند ہے تو اس میں اچنبھے کی کون سی بات ہے ؟ حق یہ ہے کہ اس عمل کی یہی شان ہونی چاہیے اور ابراہیمی خلوص و خوش دلی کی ادنیٰ جھلک بھی اگر کسی کے اس عمل میں پائی جائے تو اس کو یہی درجہ مجوبیت و قبولیت ملنا چاہیے ، جو حدیث بتا رہی ہے ۔ ہاں ! ہاں !! خون کے ان قطروں کو جو ابراہیمی ذوق و شوق کے ساتھ کسی عبد مسلم کے ہاتھ سے بہیں یہی رفعت عطا ہونی چاہیے کہ زمین پر گرنے سے پہلے وہ مکین عرش کے دامن قبول میں جگہ پالیں ۔ اور اس سنت ابراہیمی کی پیروری کا یہی صلہ قدر شناس جذبہ ابراہیمی سے ملنا چاہیے کہ قربانی کا ایک بال بھی رائے گاں نہ جائے ۔ سچ کہا اور یقینا خدا کی طرف سے کہا ۔ دعائے خلیل کے ظہور مجسم ( ﷺ) نے فرمایا کہ « بِكُلِّ شَعَرَةٍ حَسَنَةٌ. قَالُوا فَالصُّوفُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ بِكُلِّ شَعَرَةٍ مِنَ الصُّوفِ حَسَنَةٌ ».
’’ ہر بال کے حساب میں ایک نیکی ! ( صحابہ نے عرض کیا کہ حضور اور جو جانور اون والے ہیں ؟) فرمایا : اون میں سے بھی ہر بال کے حساب میں ایک نیکی۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب