السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض لوگ کہتے ہیں کہ قربانی کا صرف ایک ہی دن ، یعنی ۱۰ تاریخ ہے باقی ایام میں قربانی کرنا بدعت ہے، کیونکہ نبیﷺ سے فعلاً ثابت نہیں، کیا یہ صحیح ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح ہو کہ ہر چند پہلے روز قربانی ذبح کرنا افضل ہے، مگر اس فضیلت کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ۱۱،۱۲،۱۳ ذوالحجہ کو قربانی کرنے کو بدعت کہا جائے۔ کیونکہ قرآن وحدیث اور آثار میں اس کا جواز موجود ہے، بلکہ بعض معقول وجوہ کی بنا پر ۱۱،۱۲،۱۳ ذوالحجہ کو قربانی ذبح کرنا بھی افضل ہے۔
چنانچہ مفتی اعظم حضرت مولانا حافظ عبداللہ روپڑی مرحوم ومغفور کے فتاویٰ میں ہے: قربانی پہلے دن افضل ہے۔ باقی دنوں میں جائز ہے، اگر جواز کے ساتھ کوئی اور چیز مل جائے تو باقی دنوں میں افضل ہو سکتی ہے۔ مثلاً یہ نیت ہو کہ گوشت غریبوں میں تقسیم کیا جائے تاکہ ان کا کئی دن گزر اوقات ہوجائے۔ یا ۱۳ تاریخ کو قربانی اس نیت سے کرے کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ ۱۳ تاریخ کو بی قربانی صحیح ہے تو ہو سکتا ہے کہ دوسرے دنوں میں بھی وہی فضیلت ہو جو پہلے دن میں ہے۔ چنانچہ مروی ہے:
عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ مِثْلَهُ، وَقَالَ: «كُلُّ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ذَبْحٌ۔ رواہ احمد وھو للدارقطنی من حدیث سلیمان بن موسیٰ عن عمرو بن دینار وعن نافع بن جبیر عن النبیﷺ نحوة۔
یعنی سلیمان بن موسی نے جبیر بن مطعم سے روایت کی ہے انہوں نے رسول اللہﷺ سے بیان کیا، آپ نے فرمایا کہ تمام ایام تشریق وااود۱۲،۱۳،قربانی کے دن ہیں۔ (نیل الاوطار ج۵ص۱۶۵)
اس حدیث سے ظاہر ہے کہ ایام تشریق قربانی کے دن ہیں اور ایام تشریق عید کے دن کے علاوہ ۱۱،۱۲،۱۳ تین دن ہیں تو گویا قربانی ۱۳ تاریخ تک جائز ہے۔ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ اس کے متعلق کہتے ہیں: لا یثبت وصلہ یعنی اس حدیث کا موصول ہونا ثابت نہیں۔ مگر امام شوکانی رحمہ اللہ اس کے جواب میں لکھتے ہیں: یجاب عنہ بان ابن حبان وصلہ وذکرہ فی صحیحہ کم سلف (نیل الاوطار) یعنی اس کا جواب یہ ہے کہ ابن حبان نے اس حدیث کو موصول ذکر کیا ہے اور اپنی صحیح میں اس کو لائے ہیں۔ اس کے علاوہ امام ابن القیم رحمہ الہ علیہ نے زادالمعاد جلد ۱ میں تیرہویں تاریخ کو قربانی کے جواز کی ایک وجہ یہ لکھی ہے کہ حدیث ادخار (جس میں تین دن سے زیادہ گوشت کا ذخیرہ کرنا منع تھا۔) سے تیرہویں تاریخ کو ذخیرہ کرنا ثابت ہوگیا۔ یعنی جب تین دن سے زائد دنوں کے لئے گوشت کا ذخیرہ کرنا جائز ہوگیا ہے اور یہ حدیث منسوخ ہو گئی ہے تو ااب تیرہویں تاریخ کو قربانی کرنا بھی ناجائز نہ رہی، امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ کی اصل عبارت یہ ہے:
فلو اخر الذبح الی الیوم الثالث لحازله الادخار وقت النھی بینه وبین ثلاثة ایام۔ (زاد المعاد ج۲؍۲۱۸)
نیز خود حافظ ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَرُوِيَ مِنْ وَجْهَيْنِ مُخْتَلِفَيْنِ يَشُدُّ أَحَدُهُمَا الْآخَرَ عَنْ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَنَّهُ قَالَ: «كُلُّ مِنًى مَنْحَرٌ، وَكُلُّ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ذَبْحٌ» وَرُوِيَ مِنْ حَدِيثِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ وَفِيهِ انْقِطَاعٌ. وَمِنْ حَدِيثِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ عَنْ عَطَاءَ عَنْ جَابِرٍ قَالَ يَعْقُوبُ بْنُ سُفْيَانَ: أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ عِنْدَ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ثِقَةٌ مَأْمُونٌ۔ (زاد المعاد: ص۲۴۷ ج۱، طبع جدید ج۲ ص۲۱۹)
کہ یہ حدیث دو مختلف سندوں سے مروی ہے جو ایک دوسری کو تقویت دیتی ہیں، اگرچہ جبیر بن مطعم والی حدیث منقطع ہے تاہم اسامہ بن زید والی روایت موصول ہے۔ ااور اسامہ اہل مدینہ کے نزدیک قابل اعتماد اور مامون ہے۔ (الشیخ شعیب الارنوما کے مطابق جابر کی حدیث میں ایسی کوئی چیز نہیں جو جبیر بن مطعم کی حدیث کو تقویت دیتی ہو، ہاں، وله شاھد عند ابن عدی من حدیث ابی سعید الخدری التعلیق علی زاد المعاد ج۲ص۲۱۹۔ عفیف عفی عنه وعن والدیه آمین۔)
قال علی بن ابی طالب ایام النھر یوم الأضحی وثلاثه أیام بعدھا۔ (زاد المعاد: ص۲۴۶ج۱)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ۱۳ ذوالحجہ تک قربانی کرنے کے دن ہیں۔
وَھُوَ مَذھَبُ اِمَامِ اَھلِ البَصْرَة اَلْحَسَنِ وَاِمَامَ اَھْلِ مَکَّةَ عَطَاءِ بْنِ اَبِیْ رِبَاحٍ وَّاِمَامِ اَھْلِ الشَّامِ الْاَوْزَاعِیِّ وَاِمَامِ فُقَھَاءِ اَھْلِ حَدِیثٍ اَلشَّافَاف،عِیِّ رَحِمَھُمُ اللہ وَاخْتَارَہُ ابْنُ الْمُنْذَرِ۔ (زاد المعاد: طبع جدید ج۱ ص۲۴۶)
شہر بصرہ کے امام حسن بصری مکہ کے امام عطاء شام کے امام اوزاعی اور سخیل فقہاء اہل حدیث امام شافعی کا یہی مذہب ہے اور اس مذہب کو امام ابن منذر جیسی شخصیت نے پسند فرمایا ہے۔ نووی شرح مسلم میں ہے کہ:
فَقَالَ الشَّافِعِيّ : تَجُوز فِي يَوْم النَّحْر وَأَيَّام التَّشْرِيق الثَّلَاثَة بَعْده ، وَمِمَّنْ قَالَ بِهَذَا عَلِيّ بْن أَبِي طَالِب وَجُبَيْر بْن مُطْعِم وَابْن عَبَّاس وَعَطَاء وَالْحَسَن الْبَصْرِيّ وَعُمَر بْن عَبْد الْعَزِيز وَسُلَيْمَان بْن مُوسَى الْأَسَدِيُّ فَقِيهُ أَهْل الشَّام ، وَمَكْحُول وَدَاوُد الظَّاهِرِيّ وَغَيْرهمْ .
حضرت امام شافعی کہتے ہیں کہ عید کے دن اور عید سے تین دن بعد ایام تشریق (11، 12، 13) میں بھی قربانی ذبح کرنی جائز ہے اور حضرت علی بن ابی طالب، جبیر بن مطعم عبد بن عباس (صحابہ میں سے) حضرت امام عطاء، حسن بصری اور عمر بن عبد العزیز (تابعین میں سے) اور شام کے فقیہ سلیمان بن موسی امام مکحول اور امام داؤد ظاہری اور سعید بن جبیر کا یہی قول ہے۔
آٹھویں صدی کے مدد حضرت امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الاختیارات میں لکھا ہے کہ آخر وقت :
ذبح الاضحية آخر اٰام التشريق وهوا مذهب الشافيع واحدٌ قولي احدٌ (بحواله الاعتصام: 28 فروري 1969ء)
اور یہ بھی یاد رہے کہ ایام معلومات سے مراد ایام معدددات ہیں اور ایام معددات یہ ہیں:
الأيام معدوداتٌ ثلاثة ايّام بعد يوم النَّحر وهذّٰا اسنادٌ صحيح
اور ایام معلومات میں قربانی ازروئے قرآن جائز ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے:
﴿وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّـهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ... ﴿٢٨﴾...الحج
اس آیت میں یہی مسئلہ بیان کیا گیا ہے۔ بہرحال اگرچہ 10 ذوالحجہ کو قربانی افضل ہے تاہم رہا یہ سوال کہ رسول اللہﷺ نے 11، 12، 13 ذولحجہ کو قربانی ذبح کی تھی یا نہیں۔ تو یہ سوال بے معنی ہے کیونکہ یہ اصول کا قاعدہ ہے کہ قول مل جائے تو فعل تلاش کرنے کی سرے سے ضرورت باقی نہیں رہتی اور آپ کا قول جبیر بن مطعم اور اسامہ بن زید کی حدیثوں میں ذکر ہو چکا ہے۔ اور خلفائے راشدین میں سے خلیفہ چہارم حضرت علی کا قول بھی زاد المعاد کے حوالہ سے لکھا جا چکا ہے۔ اس بحث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی مجبوری یا دینی مصلحت کے پیش نظر دس ذوالحجہ کی بجائے 11، 12، 13 کو قربانی ذبح کرے گا تو اس کے افضل ہونے کی بھی امید ہے۔ اگر کوئی شخص رخصت پر عمل کرتے ہوئےبطور جواز کے دس کی بجائے گیارہ بارہ اوتیرہ کو بال عذر قربانی ذبح کرے گا تو بھی اس کی قربانی جائز ہوگی۔ اس کو بدعت کہنا جہالت اور بے سمجھی ہے۔ 11، 12، 13 کے دنوں میں قربانی بلاشبہ صحیح ہے
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب