السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
پلاٹ رقبہ اس غرض سے خریدا تھا کہ یہاں مدرسہ بنے گا، یہاں بچے تعلیم حاصل کریں گے اور ضرورت پڑنے پر عید بھی پڑھی جائے گی اور جلسہ وغیرہ بھی ہوجائے گا، یہ پلاٹ زکوٰۃ کی رقم سے خریدا تھا جو اس پر عمارت تعمیر ہوئی وہ کثرت سے زکوٰۃ کی رقم سے بنی۔ قربانی کے مویشیوں کو فروخت کر کے وہ رقم بھی اس پر لگی۔ کیا اب اس کو گرا کر مسجد تعمیر ہو سکتی ہے؟ اس کا فیصلہ قرآن سنت کی رو سے وضاحت کریں۔ یہ مدرسہ یا جگہ پاکستان میں ہو یا بیرون ملک کیا سب کے لیے یکساں مسئلہ ہے؟ (مسائل مہتمم حاجی محمد ابراہیم)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مذکورہ پلاٹ چونکہ مال زکوٰۃ وغیرہ سے خرید کیا گیا اور اس کی تعمیر بھی اسی مد سے ہوئی اس لیے یہاں مسجد تعمیر نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ مسجد سے تو اغنیاء بھی مستفید ہوتے ہیں جو زکوٰۃ کے مستحق نہیں، اگرچہ بعض اہل علم مسجد کو فی سبیل اللہ کے تحت داخل کر کے جواز کےقائل ہیں۔ لیکن یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی فی سبیل اللہ کا مفہوم اگر اتنا عام ہوتا تو اس میں دیگر مصارف بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ سنن ابو داؤد وغیرہ میں مروی روایات کی بنا پر علماء کے ایک گروہ نے مصرف فی سبل اللہ کو جہاد اور حج عمرہ کے ساتھ مخصوص کیا ہے۔ ہاں، البتہ اگراس مقام پر مسجد بنانی ناگزیر ہو تو اس عمارت کی قیمت لگا کر اس قیمت سے مدرسہ کسی دوسری جگہ تعمیرکیا جائے اور اس جگہ پر مسجد تعمیر کر لی جائے یا اس رقم کو مستحقین رکوٰۃ پر تقسیم کر جائے۔ یہ عمارت اندرون ملک ہو یا بیرون ملک، سب کا حکم ایک جیسا ہے کیونکہ مکان وزمان کی تبدیلی سے شریعت میں نسخ نہیں ہوتا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب