السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
1-جو شخص قرآن عزیز غلط پڑھتا ہے، شریعت میں اس کاکیا حکم ہے؟
۲۔ جاہل اور بے علم امام کے پیچھے عالم شخص کی نماز ہو سکتی ہے یا نہیں ؟
۳۔ ایک امام قرآن مجید کے اعراب وغیرہ کا کوئی خیال نہیں کرتا، اس کے متعلق حکم شرعی کیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
۱۔ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر قرآن مجید غلط پڑھتا ہے تو ایسا آدمی سخت مجرم، گناہ گار اور واجب التعزیر ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ قرآن عزیز ایسے شخص پر لعنت کرتا ہے کیونکہ ایسا شخص تحریف لفظی کا مرتکب ہوتا ہے اور تحریف لفظی کفر کے مترادف ہے۔ ایسے آدمی کو توبہ کرنی چاہیے۔ اگر جان بوجھ کر نہیں بلکہ کوئی اور وجہ ہے، مثلاً: لکنت وغیرہ تو پھر ایسا شخص مجبور ہے۔ تاہم اسے بھی اپنی بساط تک صحیح پرھنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ اگر وہ اس کوشش میں لگا رہے گا تو ان شاء اللہ اسے دگنا ثواب ملے گا، خدا توفیق ارزانی فرمائے۔
حدیث صحیح میں ہے:
((عن ابی ھریرة انه کان یقول کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم لَمْ يَأْذَنِ اللَّهُ لِشَيْءٍ مَا أَذِنَ لِلنَّبِيِّ أَنْ يَتَغَنَّى بِالقُرْآنِ» ، وَقَالَ صَاحِبٌ لَهُ: يُرِيدُ يَجْهَرُ بِهِ)) (صحیح بخاری: ص۷۵۱ ج۲ باب من لم یتغن بالقرآن۔)
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اتنا متوجہ ہو کر کسی چیز کو نہیں سنتا جتنا قرآن کی طرف متوجہ ہو کر سنتا ہے۔ جب پیغمبرﷺ اس کو خوش آوازی سے پڑھتے ہیں۔‘‘
ابو سلمہ راوی حدیث کو ایک (وست عبدالحمید بن عبدالرحمٰن کہتا تھا۔ اس حدیث میں یتغنی بالقرآن سے یہ مراد ہے کہ پکار کر اس کو پڑھے۔ علمائے حدیث نے لم یتغن بالقرآن کے تین مطلب بیان کئے ہیں:
۱۔ قرآن مجید کو ہی کافی سمجھنا چاہیے، دوسرے مذاہب کی کتب کا مطالعہ غیر ضروری سمجھنا چاہیے۔
۲۔ دوسری جماعت کا خیال ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو قرآن کو نعمت عظمی سمجھ کر اس کی وجہ سے غنی اور بے پروانہ رہے بلکہ دنیا داروں کی خوشامد کرے اور ان سے اپنی احتیاج بیان کرے، ایسا شخص مسلمان نہیں ہے۔
۳۔ اہل علم کی تیسری جماعت کا خیال ہے کہ جو شخص قرآن مجید کو خوش آوازی سے نہ پڑھے وہ گناہ گار ہے۔ بہرحال اس حدیث کا جو بھی مفہوم ہو، یہ بات واضح ہے کہ قرآن مجید کو صحت کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے۔ حافظ ابن حجرؒ اس حدیث کے ذیل لکھتے ہیں:
أَمَّا تَحْسِينُ الصَّوْتِ وَتَقْدِيمُ حُسْنِ الصَّوْتِ عَلَى غَيْرِهِ فَلَا نِزَاعَ فِي ذَلِكَ (فتح الباری: ص۶۴ ج۹)
’’قرآن مجید کو خوش آوازی سے پڑھنا اور خوش آواز قاری کو امام بنانے میں کوئی نزاع نہیں ہے‘‘
أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلَى اسْتِحْبَابِ تَحْسِينِ الصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ مَا لَمْ يَخْرُجْ عَنْ حَدِّ الْقِرَاءَةِ بِالتَّمْطِيطِ فَإِنْ خَرَجَ حَتَّى زَادَ حَرْفًا أَوْ أَخْفَاهُ۔ (فتح الباری: ص۶۴ ج۹)
’’قرآن مجید کو خوش آوازی سے پڑھنا بالا جماع مستحب ہے۔ بشرطیکہ وہ قراءت معروفہ کی حد سے متجاوز نہ ہو اور کوئی حرف چھوڑ دینا یا کسی حرف کا اضافہ کرنا حرام ہے۔‘‘
بہرحال خوش آوازی جبھی مستحب ہو گی جب وہ صحت الفاظ کے ساتھ ہو، ورنہ نہیں۔ واللہ اعلم
جاہل کے پیچھے عالم کی نماز اگرچہ ہو جاتی ہے، تاہم عالم آدمی کو چھوڑ کر جاہل کو امام بنانا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ امامت کے لیے ایسا آدمی ہونا چاہیے جو عالم اور ماہر قرآن ہو۔
عن ابن ابی مسعود عقبة بن عمرو قال قال رسول اللہﷺ یؤم القوم اقراھم لکتاب اللہ۔۔۔۔ الحدیث رواہ احمد ومسلم۔ قال القاضی الشوکانی فی النیل وَقَدْ اُخْتُلِفَ فِي الْمُرَادِ مِنْ قَوْلِهِ: " يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ " فَقِيلَ الْمُرَادُ أَحْسَنُهُمْ قِرَاءَةً وَإِنْ كَانَ أَقَلّهمْ حِفْظًا، وَقِيلَ: أَكْثَرهمْ حِفْظًا لِلْقُرْآنِ. وَيَدُلُّ عَلَى ذَلِكَ مَا رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْكَبِيرِ وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيحِ عَنْ عَمْرِو بْنِ سَلَمَةَ أَنَّهُ قَالَ: «انْطَلَقَتْ مَعَ أَبِي إلَى النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - بِإِسْلَامِ قَوْمِهِ، فَكَانَ فِيمَا أَوْصَانَا: لِيَؤُمَّكُمْ أَكْثَرُكُمْ قُرْآنًا، فَكُنْتُ أَكْثَرَهُمْ قُرْآنًا فَقَدَّمُونِي» (اخرجہ ایضا البخاری، ابو داؤد والنسائی)
’’یعنی قوم کی امامت اللہ کی کتاب (قرآن مجید) زیادہ پڑھنے والا کرے۔ امام محمد علی شوکانی نے نیل الاوطار میں لکھا ہے کہ محدثین نے اقراھم (زیادہ پڑھنے والا) کے متعدد معنی لکھے ہیں، بعض نے لکھا ہے کہ اس سے مراد وہ ہے جو بہترین طریقہ سے پڑھنے والا ہو۔ اگرچہ قرآن مجید کم ہی یاد ہو۔ اور بعض کے مطابق اس سے وہ شخص مراد ہے جو زیادہ قرآن کا حافظہ ہو۔ اس کا مطلب کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو طبرانی کبیر میں ثقہ راویوں سے مروی ہے۔ عمرو بن سلمہ سے روایت ہے کہ جب میرے والد اپنی قوم کے اسلام لانے کی خبر لے کر جناب رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تومیں بھی اپنے والد کے ساتھ گیا تھا۔ آپ نے ہمیں کچھ وصیتیں فرمائی تھیں۔ منجملہ ایک وصیت یہ تھی کہ زیادہ قرآن والا امامت کرے، میں زیادہ قرآن جاننے والا تھا، انہوں نے مجھ کو امام بنا لیا۔‘‘
((عن جابر عن النبیﷺ قال لَا تؤمن إمراة رَجُلاً وَّلا أَعْرَابِیٌّ مُّھَاجِراً ولا یؤمن فَاجِرٌ مؤمنا إلا ان یقھر بسلطان یَخَافُ سَوْطَہٗ وَسَیْفَه)) (رواہ ابن ماجه)
’’یعنی حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ عورت مرد کی امامت نہ کرائے اور اعرابی مہاجر کی امامت نہ کرائے اور نہ فاجر مومن کی، مگر یہ کہ جبراً امام بن جائے، اپنے کوڑے اور تلوار کے بل بوتے پر، تو ایسی صورت میں مومن کو فاجر کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے۔‘‘
ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ عالم کی موجودگی میں جاہل کو منصب امامت چھوڑ دینا چاہیے۔ کیونکہ وہ اس منصب کا اہل نہیں ہے۔
ایسا شخص سخت نا فرمان ہے۔ کیونکہ رسول اللہﷺ شد، مد اور اعراب کا خاص خیال رکھتے تھے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے:
قال قتادة سألت انس بن مالك عَنْ قِرَأة النبیﷺ فَقَالَ کَانَ یَمُدُّ مَدّاً(باب مد القراة، ج۱،ص۷۵۳)
’’جناب قتادہؒ تابعی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انسؓ سے پوچھا کہ رسول اللہﷺ کی قراءت کیسی ہوتی تھی؟ تو انہوں نے بتایا: مد کے ساتھ یعنی جس حرف کو لمبا کرنا چاہیے اس کو لمبا کرتے تھے۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اعراب، زبر، زیر، پیش، مدوغیرہ کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ورنہ معانی میں التباس اور خلل کا اندیشہ ہے۔ لہٰذا ایسا امام جو اعراب کا خیال نہیں رکھتا، ایسے امام کو امامت کے منصب سے رضاکارانہ سبکدوش ہو جانا چاہیے۔ بصورت دیگر اسے امامت سے ہٹا دینا چاہیے، تاہم اگر کسی فتنہ کا خطرہ ہو تو مجبوری ہے۔
هذا ما عندى والله اعلم