سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(188) کیا مسلم عورت غیر مسلم مرد سے نکاح کر سکتی ہے؟

  • 14038
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 4792

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سری سے محمد افضل گرجا کھی لکھتے ہیں (۱)اہل کتاب سے نکاح جائز ہے تو اس کا قرآن اور حدیث سے ثبوت دیں کہ کس وجہ سے جائز ہے؟ (۲)کیا واقعی نبی ﷺ کی حیات میں کسی نے غیر مسلم عورت سے نکاح کیا تھا؟ (۳)اگر مرد غیر مسلم عورت سے نکاح کرسکتا ہے تو کیا مسلم عورت بھی غیر مسلم مرد سے نکاح کرسکتی ہے؟

(۴)ایک مسلم مرد اور مسلم عورت کا نکاح ہوا ہے پھر عورت عیسائی ہوجاتی ہے تو کیا نکاح نہیں ٹوٹتا یا آدمی عیسائی ہوجاتا ہے تو کیا اس کے ساتھ مسلم عورت ویسے ہی رہ سکتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(۱)غیر مسلم عورت سے مرد کا نکاح قطعی حرام ہے ‘ ہاں اہل کتاب غیر مسلم عورت سے بعض شروط کے تحت نکاح جائز ہے اس لئے یہاں صرف غیر مسلم کا نہیں بلکہ اہل کتاب کا لفظ استعمال کرناچاہئے اور اس موضوع پر ’’صراط مستقیم‘‘ میں ایک سے زائد مرتبہ لکھا جا چکا ہے کہ جمہور علماء اور اماموں کامسلک یہی ہے کہ اہل کتاب عورت سے نکاح جائز ہے ۔ ان کی دلیل کی بنا پر سورہ مائدہ کی یہ آیت کریمہ ہے

﴿وَالمُحصَنـٰتُ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ مِن قَبلِكُم...﴿٥﴾... سورةالمائدة

’’یعنی اہل کتاب کی پاک دامن عورتیں بھی تمہارے لئے حلال ہیں۔‘‘

حضرت حذیفہ ؓ کےبارے میں آتا ہے کہ جب انہوں نے حضرت عمر فاروق کے زمانے میں ایک یہودی عورت سے نکاح کیا تو حضرت عمرؓ نے انہیں اس عورت کو چھوڑدینے کا حکم لکھا اور جب حضرت حذیفہ ؓ نے اس کی وضاحت چاہی تو فرمایا میں اسے حرام تو نہیں سمجھتا لیکن اس میں مومن عورتوں کے لئے ضرورنقصان ہے۔ اس لئے علیحدگی کا حکم دے رہاہوں۔

اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر حضرت عمرؓ اسے جائز سمجھتے تھے اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ غیر مسلم ہونے کے باوجود مسلمان اور اہل کتاب کے درمیان ایک چیز مشترک ہے وہ اللہ پر ایمان ’بعض رسولوں پر  ایمان‘ آخرت پر ایمان اور آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں اور شاید اسی اشتراک اور قربت کی وجہ سے یہ گنجائش رکھی گئی ہے۔ اس لئے اگر صحیح اہل کتاب ہونے ’پاک دامن ہونے اور خود مسلم مرد کے صحیح مسلمان ہونے جیسی اہم شرائط پوری ہوں تو یہ نکاح جائز ہے اور اگر یہ شرائط پوری نہ ہوں یا کچھ اور خطرات ہوں تو پھر جیسے حضرت عمرؓ نے حضرت حذیفہؓ کو منع کردیا تھا آج بھی اس سے روکا جاسکتا ہے۔

بعض نے اہل کتاب سے نکاح کو کراہت کے ساتھ جائز قرار دیا ہے اور بعض ائمہ نے اسے بالکل حرام بھی کہاہے اور ان کی دلیل بخاری شریف میں مروی حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا یہ قول ہے:

’’لا اعلم شرکا اعظم من ان یقول ربها عیسیٰ‘‘ (فتح الباري ج ۱۰ کتاب  الطلاق باب قوله تعالی ولا تنکحوالمشرکات ص ۵۲۲ رقم الحدیث ۵۲۸۵)

’’کہ میرے نزدیک اس سے بڑا شرک کیا ہے کہ عیسی ؑکو رب مان لیا جائے یعنی ان کے نزدیک اہل کتاب بھی مشرکین میں داخل ہیں اس لئے ان سے نکاح حرام ہے۔‘‘

لیکن جیسا میں نے تحریر کیا ہے کہ جمہور کے نزدیک اصل دلیل قرآن کی آیت ہے اس لئے کڑی شرائط کے باوجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔

(۲)میرے علم میں ایسا کوئی واقعہ نہیں کہ کسی نے نبی ﷺ کی حیات مبارکہ میں کسی اہل کتاب عورت سے نکاح کیا ہو۔

(۳)جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ اگر مرد اہل کتاب عورت سے نکاح کرسکتا ہے توپھر مسلم عورت اہل کتاب مرد سے کیوں نہیں کرسکتی ۔ یوں تو اس کی مختلف حکمتیں ہوسکتیں ہیں لیکن جوبات آسانی سمجھ میں آجاتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کا اپنا ایک مخصوص نظام ہے جو زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے جن میں عائلی زندگی بھی شامل ہے اور مجموعی لحاظ سے مرد کو عورت پر فوقیت دی گئی ہے اور عام طورپر عورت مرد کے احکام کے تابع ہوتی ہے اور زندگی کے بیرونی مسائل میں زیادہ تر مرد ہی حصہ لیتا ہے اور اسلام میں مرد کو عورت کے سلسلے میں جو خاص حقوق حاصل ہیں ظاہر ہے اگر مسلم عورت غیر مسلم مرد سے شادی کرے گی تو اسلام غیرمسلم کتابی مرد کو مسلمان عور ت  پر فوقیت کے اختیارات نہیں دے سکتا اس طرح ایک مسلمان غیر مسلم کا زیر نگیں ہوجاتا ہے اور قرآن نے اس بارے میں واضح طورپر کہہ دیا کہ:

﴿ لِيُظهِرَ‌هُ عَلَى الدّينِ كُلِّهِ ... ﴿٩﴾... سورةالصف

اور پھر ایک غیر مسلم ایک مسلمان عورت کے دین کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ وہ اس کی کتاب کا انکار کرتا ہے اور اس کے نبی کی رسالت کو جھٹلاتا ہے ایسے ماحول  میں میاں بیوی کے درمیان اسلامی طرز پر زندگی گزارنا ممکن نہیں ہوتا۔

اور جب مسلمان مرد عیسائی یا یہودی عورت سے شادی کرتا ہے تو وہاں یہ خطرات و مضمرات اس لئے نہیں ہوتے کہ اولاد کی نسبت اسلامی شریعت میں والد کی طرف ہوتی ہے۔ عورت باہر سے آکر ایک اسلامی خاندان میں شامل ہوجاتی ہے اور اس طرح مسلمان خاوند کے توسط سے اسلام اس کتابی عورت پر غالب و حاکم رہتا ہے اس کے برعکس جب مسلمان عورت اہل کتاب غیر مسلم مرد کے ساتھ نکاح کرے گی تو وہ اسلامی ماحول سے دورہوجائے گی۔ ایک غیر اسلامی فیملی میں اسے ضم ہوتا پڑتا ہے اور پھر اس کے بچوں پر اس کے والد کے اثرات ہوں گے اور وہ فوقیت جو اسلام چاہتا ہے ایسی صورت میں قائم نہیں رہ سکتی۔ اسی لئے ہم یہ بھی کہتے ہیں اگر کمزور مسلمان کسی اہل کتاب کی عورت سے نکاح کرتا ہے اور اس وجہ سے خود اس کے ایمان کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے اور غلبہ و اثر کی بجائے وہ مغلوب ہو کر یا متاثر ہو کر زندگی بسر کرتا ہے تو ایسے مسلم مرد کے لئے بھی غیر مسلم عورت سے شادی جائز نہ ہوگی۔

(۴)مسلمان مرد اور عورت کے نکاح کے بعد ان میں سے ایک کے اسلام چھوڑ دینے کی شکل میں نکاح باقی نہیں رہے گا ۔ اگر عورت عیسائی  ہوجاتی ہے تو مرد کے لئے جائز نہیں کہ اسے اپنے نکاح  میں رکھے اور اگر مرد عیسائی ہوجائے تو مسلم عورت اس کے عقد میں رہ نہیں سکتی اور یہاں سبب بالکل مختلف ہے اور وہ ہے ارتداد یعنی یہ مرتد ہونے کی شکل ہے اگر صحیح اسلامی حکومت ہو تو ایسے لوگوں کی سزا قتل ہے جو اس طرح اسلام سے باغی و مرتد ہوجاتے ہیں لیکن نکاح تو کسی صورت میں باقی نہیں رہے گا کیونکہ ایسی عورت اہل   کتاب میں شامل نہیں ہوئی بلکہ دین اسلام سے مرتد ہونے کی وجہ سے اس کےلئے  یہ حکم ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص402

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ