السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سلاؤ سے چوہدری عبدالرشید لکھتے ہیں ’’ قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ وضاحت فرمائیں کہ کیا ایک رات میں تراویح اور وتر کے بعد تہجد بھی پڑھی جاسکتی ہے؟ اور کیا تہجد اور تراویح ایک ہی نماز کے دونام ہیں؟ تراویح سونے سے پہلے پڑھی جاتی ہے اور تہجد سو کر اٹھنے کے بعد پڑھی جاتی ہے۔بعض لوگ تراویح وتر سمیت پڑھنے کے بعد تہجد پڑھنے کو بھی جائز قرار دیتے ہیں ۔‘‘
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دراصل تراویح اور تہجد رات کی نماز کے دونام ہیں۔ رات کو سو کر اٹھنے کے بعد جو نفلی عبادت کی جاتی ہے اسے قیام اللیل اور تہجد کہا گیا ہے اور اگر یہی نماز رمضان میں سونے سے پہلے پڑھ لی جائے تو اسے قیام رمضان یا تراویح سے تعبیر کیا گیا ۔ عام طور پر قیام اللیل کو تہجد اور قیام رمضان کو تراویح کہاگیا ہے قرآن حکیم کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی کریم ﷺ پر نماز تہجد ضروری قرار دی گئی۔ فرمایا:
﴿وَمِنَ الَّيلِ فَتَهَجَّد بِهِ نافِلَةً لَكَ ...﴿٧٩﴾... سورة الاسراء
’’اور رات کے کچھ حصے میں آپ قرآن کے ساتھ جاگیں ۔ یہ اجر میں آپ کے لئے زیادہ ہوگا۔‘‘
مختلف احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ نماز تہجد ہی کو رمضان المبارک میں نماز تراویح کہاگیا۔
چنانچہ ترمذی شریف کی حدیث ہے۔ حضرت ابوذرؓ روایت کرتےہیں :
قال صمنا رسول الله ﷺ فلم یصل بنا حتی بقی سبع من الشهر فقا م بنا حتی ذهب ثلث اللیل ثم لم یقم بنا فی الثالثة وقام بنافی الخامسة حتی ذهب شطر اللیل فقلنا یا رسول الله تو نفلتنابقیة لیلتنا هذه؟ فقال انه من قام مع الامام حتی ینصرف کتب له قیام لیلة ثم لم یقم بنا حتی بقی ثلاث من الشهر فصلی بنا فی الثالثه و دعا اهله ونسا فقام بنا حتی تخوفنا الفلاح فقلت له مالفلاح قال السحور۔(سنن ترمذي ج ۱ رقم الحدیث ۶۴۶)
’’حضرت ابوذر ؓ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رمضان المبارک کےروزے رکھے۔ آپ نے ہمارے ساتھ پورا مہینہ جماعت کے ساتھ کوئی نماز نہ پڑھائی۔ یہاں تک کہ سات دن باقی رہ گئے تو پھر ایک رات آپ نے ہمارے ساتھ تہائی رات قیام فرمایا۔ اس کے بعد پھر آپ نے پچیسویں رات کو آدھی رات تک قیام کیا ۔ ہم نے عرض کیا اللہ کے رسول اگر آپ باقی رات بھی ہمیں عطا کردیتے تو کیا اچھا ہوتا۔ آپ نے فرمایا جو امام کے ساتھ عبادت کرنے کے بعد پھر اس کے ساتھ واپس چلا جاتا ہے اس کی ساری رات کی عبادت لکھی جاتی ہے۔ اس کے بعد آپ نے ستائیسویں کو ہمارے ساتھ نماز پڑھی اور اپنے اہل وعیال کو بھی ساتھ بلایا اور اتنی دیر تک ہمارے ساتھ رات کا قیام کیا کہ ہمیں یہ خوف لاحق ہوگیا کہ ہماری سحری فوت نہ ہوجائے۔‘‘
اب اس حدیث سے صاف طورپر معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نے ساری رات قیام کیا۔ یہاں تک کہ سحری کا وقت قریب آگیا ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر تہجد کی نماز آپ نے کس وقت پڑھی۔ کیونکہ رات ساری توآپ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کے ساتھ تراویح کی نماز پڑھتے ہوئے گزاری ۔ ایک دوسری روایت یہ بھی ہے کہ ظاہر ہے کہ رمضان المبارک میں وہی نماز تہجد جو حضور ﷺ پڑھا کرتے تھے۔اس سے تو بالکل واضح ہوگیا کہ تہجد اور تراویح ایک ہی نماز ہے۔ بس رمضان المبارک میں اس نماز کو تراویح کہاگیا ۔
اور پھر رمضان المبارک میں تراویح وتر سمیت اد اکرنے کے بعد پھر تہجد پڑھنے کی کوئی تک نہیں۔ کیونکہ وتر رات کی نماز میں آخری ہونا چاہئے۔ جیسا کہ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
ایکم خاف ان لا یقوم من آخر االلیل فلیوتر ثم لیرقد و من وثق بقیام من آخر اللیل فلیوتر من آخره فان قراة آخر اللیل محضورة و ذالک افضل ۔ (مسلم مترجم ج ۱ کتاب الصلوة المسافرین باب صلوة اللیل و عدد رکعات النبیﷺ فی اللیل و ان الوتر رکعة و ان الرکعة صلاة صحیحة ص ۲۵۳)
’’آپﷺ نے فرمایا : تم میں سے جسے یہ ڈر ہو کہ وہ وتر کےلئے را ت آخری حصے میں نہیں اٹھ سکے گا تو وہ وتر پڑھ کر سوئے ۔ اور جسے یقین ہو کہ وہ آخر رات میں اٹھے گا وہ آخری حصے میں وتر پڑھے اس لئے کہ اس وقت رحمت کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہی افضل ہے۔‘‘
اس لئے جولوگ رمضان کے علاوہ تہجد پڑھتے ہوں انہیں بھی وتر آخر میں ہی پڑھنا چاہئے بہرحال یہ نماز تہجد ہی ہے جسے رمضان المبارک میں حضور اکرمﷺ اور صحابہ کرامؓ نے زیادہ اہتمام و شوق سے ادا کیا اور یہی نماز تراویح ہے۔ جہاں تک تراویح کے بعد پھر تہجد پڑھنے کا مسئلہ ہے اس کا بظاہر کوئی ثبوت یا دلیل نہیں ہاں جو لوگ مزید نوافل ادا کرنے چاہتے ہوں تو ان پر کوئی پابندی ہے اور نہ ہی ان نوافل کی کوئی تعداد مقرر ہے۔ لیکن ایسے لوگوں کو بھی چاہئے کہ اگر وہ رات کے آخری حصے میں مزید نفل پڑھنا چاہتے ہوں تو پھر وتر موخر کردیا کریں اور نماز تراویح کے ساتھ وتر نہ پڑھیں بلکہ مزید نوافل ختم کرنے کے بعد وتر پڑھیں یہی افضل ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب