السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حافظ محمد اویس برمنگھم سےلکھتےہیں
(الف) کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ یہاں جب کسی کی موت ہوجاتی ہے‘ تو سب حضرات اپنی میت کو پاکستان یا انڈیا بھیجتےہیں۔ کیا اسلام میں اس کی اجازت ہے؟
(ب)یہاں میت کو جب دفن کرتے ہیں تو بکس میں دفن کرنا پڑتا ہے تو کیا اسلام اس بکس کیا اجازت دیتا ہے؟ اوراگر دیتا ہے تو بکس کے اندر میت کے نیچے مٹی رکھنی چاہئے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(الف)اگر کوئی مجبوری اور عذر نہ ہو تو بہتر اور افضل یہی ہے کہ جہاں اور جس جگہ موت واقع ہو میت کو وہاں ہی دفن کیا جائے۔ مگر ضرورت کی شکل میں اسے منتقل کرکے کسی دوسری جگہ لےجا کر دفن کرنا بھی جائز ہے۔ا س سلسلے میں درج ذیل روایت سے استدلال کیا جاسکتا ہے۔
قال عبدالله بن ابی ملیکه توفی عبدالرحمن بن ابی بکر بالحبشة فحمل الی مکة فلغن فلما قدمت عائشة انت قبره ثم قالت والله لو حضر تک ما دفنت الا حیث مت۔(ترمذی ج ۱ کتاب الجنائز باب ماجاء فی زیارة القبور للنساء ص ۳۷۷۔) (المغني لابن قدامه جلد دوم ص ۵۱۰)
’’یعنی عبدالرحمان بن ابی بکرؓ حبشہ میں فوت ہوئے تو ان کی میت مکہ میں لاکر دفن کی گئی۔ جب ام المومنین حضرت عائشہؓ صدیقہ (ان کی بہن) آئیں اور قبر پر گئیں تو انہوں نے فرمایا: خدا کی قسم اگر میں وہاں موجود ہوتی تو تجھے وہاں پر ہی دفن کیا جاتا جس جگہ موت واقع ہوئی۔ ‘‘
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ضرورت ہوتو میت منقول کی جاسکتی ہے۔ بعض نے حضرت عائشہ ؓ کےفرمان سے یہ ثابت کیا ہے کہ ان کے نزدیک یہ جائز نہیں تھا اسی لئے انہوں نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
حضرت امام احمد بن حنبلؒ کا قول ہے
’’ما اعلم بتقل الرجل یموت فی بلده الی بلد اخر باسا۔‘‘(المغني لابن قدامة ۴۴۲/۲ مطبوع قاهره)
’’کہ میرے علم کے مطابق آدمی جس شہر میں فوت ہو‘ وہاں سے اسے دوسرے شہر میں منتقل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘
امام زہریؒ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اس کے جواز میں یہ دلیل دی کہ سعد بن ابی وقاص ؓ اور سعید بن زیدؓ کی میتوں کو عقیق سے مدینہ منورہ لایا گیا اور ابن عینیہؓ نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے وفات کے وقت یہ وصیت کی کہ انہیں یہاں دفن نہ کیا جائے بلکہ سرف کے مقام پر دفن کیا جائے۔(المغني لابن قدامه ۴۴۳/۳)
بعض نے حضرت عائشہ ؓ کے قول کی یہ توجیہ پیش کی ہے کہ انہوں نے اس اندیشے کے پیش نظر اپنی ناپسندی کا اظہار کیا تھا کہ دور سے میت لائی جائے تو اس کو خراب ہونے کا خطرہ ہوتا ہے‘ اس لئے قریب کےشہر یا جگہ میں منتقل کرناجائز ہے‘ لیکن دور لے جانا درست نہیں۔
مذکورہ دلائل کی روشنی میں اس مسئلے کی درج ذیل صورتیں سامنے آتی ہیں۔
۱۔بہتر اور افضل یہی ہے کہ میت کے دفن میں کسی نوع کی بھی تاخیر نہ کی جائے اور جہاں فوت ہو اسی مقام پر دفن کیاجائے۔ مسنون طریقہ بھی یہی ہے۔
۲۔اگر کوئی عذر یامجبوری ہوتو پھر میت کو دوسرے مقام پر منتقل کرناجائز ہے۔ مثلاً جہاںموت واقع ہوئی وہاں کفن و دفن یا جنازے کا صحیح انتظام نہیں‘ مسلمانوں کا اپنا قبرستا ن نہیں یا اس طرح کی کوئی دوسری مجبوری ہے۔
۳۔ برطانیہ سےجو لوگ میت پاکستان یا انڈیا بھیجتے ہیں وہ بڑا عذر یہی پیش کرتے ہیں کہ یہاںمسلمانوں کے الگ قبرستان نہیں ہیں اور اگر یہ عذر صحیح ہے تو اس میں کافی وزن بھی ہے۔ مسلمانوں کو غیر مسلموں کے قبرستان میں دفن کرنابہرحال جائز نہیں ہے اور اس غرض کے لئے اسے اپنے ملک لے جانےمیں کوئی قباحت نہیں ہے۔
۴۔جہاں اپنے عزیزواقارب ہوں وہاں دفن کرنے کو اس لئے بھی ترجیح دی گئی ہے تاکہ ان کا زیارت ودعا کےلئے آنا ممکن ہوسکے۔ اور اگر عزیزواقارب سے دور غیر مسلموں کے قبرستان میں دفن کیا جائے جہاں کسی کا دعا کےلئے گزر بھی ممکن نہ ہو تو یہ مرنے والے کےساتھ سخت بے انصافی ہوگی۔
۵۔بہرحال عذر اور ضرورت کےتحت میت کا منتقل کرناجائز ہے لیکن بلاضرورت یہ جائز نہیں ہے اور خاص طورپر اگر نعش خراب ہونے کا خطرہ ہو یا جنازے میں بہت زیادہ تاخیر ہونے کا اندیشہ ہوتو پھر دوسری جگہ لےجانے کی بجائے وہاں ہی دفن کرنا بہتر ہے ۔ بشرطیکہ وہاں مسلمانوں کا اپنا الگ قبرستان موجود ہو۔
(ب)میت کو تابوت میں دفن کرنا خلاف سنت اور مکروہ کام ہے۔ ہاں اگر میت کو کسی جگہ منتقل کرنا ہے یا قبر میں پانی اور نمی آگئی ہے۔ایسی صورت میں مجبوراً تابوت استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن بغیر عذر اور مجبوری کے تابوت میں دفن کرناجائز نہیں۔
بہتر یہ ہے کہ میت کو بکس سےباہر نکال کر دفن کیا جائے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر تابوت کےاندر مٹی رکھی جاسکتی ہے بشرطیکہ اس کی گنجائش اور جگہ ہو لیکن عام طور پر جو بکس بنائے جاتےہیں ان میں مزید مٹی ڈالنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب