السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
برمنگھم سے محمد امین لکھتے ہیں
(۱)ایک امام صاحب کو اگر ایک مسجد کی طرف سے نمازیں اور بچے پڑھانے کے عوض معقول معاوضہ دیا جارہا ہو اور وہ امام صاحب خفیہ طریقے سے کسی اور ادارے سے بھی معاوضہ منظور کروا لیں تو ان کا یہ فعل جائز ہے اور وہ امامت کے قابل ہیں؟
(۲)ایک امام صاحب کو مثلاً ڈیڑھ سو پاؤنڈ ماہوار تنخواہ ملتی ہے وہ کچھ عرصے کے لئے پاکستا ن جاتے ہیں اور اپنی جگہ ایک اور امام مقرر کرتے ہیں اور ان کو وہ سو پاؤنڈ دیتے ہیں۵۰ پاؤنڈ پہلے امام صاحب خود رکھ لیتے ہیں۔ کیا ان کا یہ فعل جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امام صاحب اگر کسی دوسرے ادارے سے جھوٹ یا غلط بیانی کرکے کوئی رقم یا تنخواہ منظورکرالیتے ہیں یہ جائز نہ ہوگا ۔ لیکن اگر ان کی خدمات کے صلے میں کوئی ادارہ ان کی مزید تنخواہ مقرر کرتا ہے مسجد کمیٹی کو اس پر کوئی اعتراض بھی نہ ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
(۲)اگر امام صاحب اپنی طرف سے اپنی عدم موجودگی میں جو امام مقرر کرکے گئے ہیں‘ مسجد کی انتظامیہ اسے قبول کر لیتی ہے اور تنخواہ وغیرہ کا مسئلہ وہ امام صاحب پر چھوڑ دیتی ہے کہ وہ پوری دیں یا آدھی یا بالکل کچھ نہ دیں۔ مسجد کمیٹی کو اس سے کوئی سروکار نہ ہو تو پھر امام صاحب کا یہ فعل جائز ہوگا اور اگر کمیٹی سے یہ کہا کہ میں اسے پوری تنخواہ دیتا ہوں مگر پچاس پاؤنڈ خود رکھ لیتے ہیں تو یہ جائز نہیں اور جو شخص جھوٹ یا دھوکہ بازی میں ملوث پایا جائے اسے مستقل امام نہیں بنانا چاہئے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب