السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا حاجی کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ حج کی سعی، طواف افاضہ سے پہلے کر لے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر حاجی مفرد یا قارن ہو تو اس کے لیے حج کی سعی طواف افاضہ سے پہلے جائز ہے اسے وہ طواف قدوم کے بعد کر سکتا ہے، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کیا تھا، جو قربانی کے جانور اپنے ساتھ لائے تھے۔ اگر حاجی متمتع ہو تو اس پر دو سعی لازم ہیں: پہلی سعی مکہ مکرمہ میں آمد کے وقت اور یہ عمرے کی سعی ہوتی ہے، چنانچہ عمرے کے لیے وہ طواف اور سعی، کرکے بال کٹواتا ہے اور اس کی دوسری سعی حج کے لیے ہوتی ہے اور افضل ہے کہ یہ سعی طواف افاضہ کے بعد ہو کیونکہ اصولا سعی طواف کے بعد ہوتی ہے، تاہم اگر وہ اسے طواف سے پہلے کرے، تو راجح قول کے مطابق پھر بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب یہ سوال کیا گیا کہ میں نے طواف سے پہلے سعی کرلی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
«لَا حَرَجَ» (صحيح البخاري، الحج، باب اذا رمی بعد ما امسی، ح: ۱۷۳۴ وصحيح مسلم، الحج، باب جواز تقديم الذبح علی الرمی، ح: ۱۳۰۶، وسنن ابی داود، المناسک باب فی من قدم شيئا… ح: ۲۰۱۵ واللفظ له)
’’کوئی حرج نہیں۔‘‘
حاجی کو عید کے دن ترتیب کے ساتھ یہ پانچ کام کرنے ہوتے ہیں: (۱)جمرہ عقبہ کی رمی (۲)قربانی (۳)بالوں کو منڈوانا یا کٹوانا (۴)بیت اللہ کا طواف (۵)صفا و مروہ کی سعی۔ اگر کوئی حاجی قارن یا مفرد ہو اور اس نے طواف قدوم کے بعد سعی کر لی ہو تو پھر اس پر دوبارہ سعی واجب نہیں ہے۔ افضل یہ ہے کہ مذکورہ بالا پانچوں کام ترتیب کے ساتھ کیے جائیں اور اگر ان میں سے بعض کو خصوصاً بوقت ضرورت آگے پیچھے کر لیا جائے، تو کوئی حرج نہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے رحمت اور آسانی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب