سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(377) جی پی فنڈ کی شرعی حیثیت

  • 13118
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1813

سوال

(377) جی پی فنڈ کی شرعی حیثیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سرکا ری ملازمین کی تنخواہ کا کچھ حصہ ان کی ملا زمت گریڈ  اور تنخواہ کے لحاظ سے جبراًکاٹ لیاجاتا ہے جسے جی پی فنڈ کہا جا تا ہے اور بنکوں کے طریق کا ر کے مطابق اس پر سالا نہ  منا فع یا سود بھی جمع ہو تا رہتا ہے

یہ رقم اس سر کا ری ملا زم کو ریٹا ئر منٹ کے مو قعہ پر اصل مع زائد ۔ادا کی جا تی ہے ۔اب کہ جواب طلب امو ر یہ ہیں کہ :

(1)کا ٹی گئی مقدار سے زائد وصول کرنا اس ملا زم کے لیے شرعاًجائز ہے یا نہیں ؟

(2)جائز نہیں تو وہ شخص اسے وصول کرے یا نہ کرے ؟کیو نکہ  اگر وہ وصول نہ کرے تو متعلقہ محکموں کے افسران اور کا ر ندے کھا جا تے ہیں ۔

(3)اور جوشخص اسے وصول کر چکا ہو اب اس رقم کو کہاں خرچ کر ے؟

براہ کرم ان پیش آمدہ سوالا ت کا شرعی حل پیش فرما ئیں  اور یہ بھی ملحوظ رہے کہ مثلاًآج سے تیس برس قبل جو رقم کا ٹی گئی آج اگر اتنی ہی واپس  ملے تو اس کی مالیت پہلے  کی نسبت  کہیں کم ہو چکی ہے ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہرسرکا ری ملا زم کی تنخواہ سے حکو مت جو مخصوص  نسبت سے کٹوتی  کرتی ہے پھر ملا زمت کے اختتام پر اسےبمعہ سود متعلقہ شخص کو ادائیگی  کی جا تی ہے چونکہ فعل ہذا ملا زم کی رضا مندی سے نہیں ہو تا اس لیے  وہ بری الذمہ ہے ۔

اور جہا ں تک سودی رقم کی وصولی کا تعلق ہے اس کی دوصورتیں ہو سکتی ہیں ۔

انسان اس کو وصول کر ے یا چھوڑدے بظاہر دونوں صورتوں میں قباحت معلوم ہو تی ہے لیکن چھوڑنے میں قباحت زیادہ ہے ممکن ہے سرکار اس مال کو ایسے مشن پر صرف کر دے جہا ں اسلام کو نقصان  پہنچنے کا اندیشہ ہو یا کا ر ندے خود ہی ہضم کر جا ئیں لہذا ایسی صورت میں بہتر یہی ہے کہ سودی مال وصول کرلیا جا ئے ۔

اس کا کھا نا چو نکہ حرا م ہے اس لیے حرا م مال کو حرا م رستے  صرف کردینا چاہیے مثلاًکسی نے سودی قرض دینا ہے اس کی اعانت کردے تا کہ وہ سود اتاردے یا اپنا جائز حق نہیں مل رہا کو ئی ظلم سے دبائے  بیٹھا ہے اور وہ کسی شے کاخیر خواہاں ہے اس کو سودی  رقم پیش کر کے اپنا حق  وصول کر ے یا کسی کو نا حق  جرمانہ ہو گیا  تو اس سے اس کو ادا کردے ۔

غرض یہ کہ اصلاًبھلا ئی اور خیر کے کسی بھی کا م میں اس کو خرچ نہ کیا جائے بلکہ حرا م شے کو حرا م طریق سے ہی نکالنا چاہیے مذکو ربحث میں جو مو قف اختیار  کیا گیا ہے ائمہ اصول فقہ کی اصطلاح میں وہ اختیار "اهون البليتين''سے مو سوم ہے ایسی پیش آمدہ صورت میں آدمی اگر دونو ں ناجائز کاموں کو چھوڑ سکتا ہو تو اولی یہی ہے اور اگر یہ ہو سکے تو ہلکے کا م کو اختیار  کر لیا جائے ۔اس کی مثال حضرت یوسف  علیہ السلام کا زنا کے بالمقابل جیل کو اختیا ر کرنا ہے قرآن مجید میں ہے ۔

﴿قالَ رَ‌بِّ السِّجنُ أَحَبُّ إِلَىَّ مِمّا يَدعونَنى إِلَيهِ...٣٣﴾... سورة يوسف

یعنی"یوسف  علیہ السلام نے دعا کی کہ پروردگار !جس کا م کی طرف یہ مجھے بلاتی ہے اس کی نسبت مجھے قید پسند ہے ۔"

اور اگر حضرت یوسف  علیہ السلام رب کریم سے دونوں مصیبتوں کے ازالے کی التجا اور دعا کر تے تو اللہ تعالیٰ دونوں کوٹالنے پرقادر تھالیکن ایسا نہیں ہو سکا نیز کٹوتی  کی رقم وصول کرنے پر کو ئی کلا م نہیں ہر فرد کو بصد خوشی اپنا استحقاق حاصل کرنا چاہیے مالیت کی کمی بیشی کا معاملہ بھی احتسابًااللہ کے سپرد کر دینا چاہیے ۔

﴿ وَهُوَ خَيرُ‌ الرّ‌ٰ‌زِقينَ ﴿٣٩﴾... سورة سبا

ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص646

محدث فتویٰ

تبصرے