السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بخدمت مدیر'' الاعتصام'' ومفتی ''الاعتصام'' سلام مسنون!
روزنامہ ''جنگ'' لاہور کی 12 مئی کی اشاعت میں ہی خبر نظروں سے گزری کہ ''گورنر مکہ'' نے خانہ کعبہ کو غسل دیا اور ہزاروں عبادت گزاروں نے اس روح پر ور منظر کو دیکھا نیز غلاف کعبہ 19 مئی کو تبدیل ہوگا ایک غلاف کی تیاری پر 17ملین ریال کا خرچہ آیا ہے۔ غلاف کی تیاری مکہ مکرمہ میں قائم خصوصی کارخانے میں ہوئی ہے۔(جنگ لاہور 12 مئی 1994ء)
سوال یہ ہے کہ یہ غسل وغلاف کعبہ اور اس پر اتنا کثیر خرچ۔کیا حدیث وسنت سے ثابت ہے؟ یا کہ یہ ایک تاریخی قسم کی رسم ہے۔جسے نبھایا جارہا ہے؟ جب کہ اتنے خرچہ سے کئی غریب مسلمان ممالک اور بے شمار غریب اہل اسلام کی معاونت وکفالت ہوسکتی ہے نیز دیگر معاملات میں جب اسراف سے اجتناب اور سادگی اور کفایت شعاری کا درس دیاجاتا ہے تو غلاف کعبہ کے سلسلہ میں اس پر عمل کیوں نہیں کیاجاتا؟
علاوہ ازیں کعبہ شریف اپنی عظمت کے باوجود جب پتھر سے تعمیر شدہ ہے تو اسے کپڑے پہنانے کی کیا ضرورت ہے ؟ اور اس کا کیا فائدہ ہے؟ کیا اسے لباس وغلاف پہنانا غیر ضروری و بے مقصد نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کعبہ کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ اغلب ادوار میں اس پر بہتر سے بہتر غلاف چڑھایا گیا۔اہل علم نے اس پر نکیر نہیں فرمائی۔بالخصوص سلف صالحین جن کے افعال واقوال کو منارہ ہدایت سمجھا جاتا ہے بلکہ فعل ہذا کوبنظر استحسان دیکھا گیا ہے چنانچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ قاضی زین الدین عبدالباسط کے بارے میں فرماتے ہیں۔
« فبالغ في تحسبنها بحيث يعجز الواصف عن صفة حسنها جزاه الله علي ذلك افضل المجازاة » (فتح الباری 3/460)
یعنی'' اس نے غلاف کی بے انتہاء تحسین وتزئین کی کہ بیان کرنے والا اس کے بیان اور توصیف سے قاصر ہے۔اللہ تعالیٰ اس عمل پر ان کو بہترین بدلہ سے نوازے۔''
اس سے معلوم ہوتا ہے انفاق ہذا اسراف تبذیر کے زمرہ میں داخل نہیں کیونکہ ا س پر بتواتر عملی اجازت موجود ہے۔اس بنا پر اہل علم کہتے ہیں۔ کہ دیگر مساجد کو کعبہ پر قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔اس عظیم خدمت کے علاوہ واضح ہو کہ موجودہ دور میں سعودی حکومت کے افضل ترین حسنات سے حرمین کی توسیع کا شاندار منصوبہ ہے۔ جو تکمیل کے آخر ی مراحل میں ہے۔ آل سعود کا یہ عظیم کارنامہ ہے۔ جس کی مثال پیش کرنے سے آج کی دنیا قاصر ہے۔ رب تعالیٰ نے انہیں زمینی خزانوں سے نوازا ہے۔ تو اس کے پسندیدہ مقامات پر زائرین کے آرام کی خاطر اس دولت کو اس کی راہ میں لٹایا اور پانی کی طرح بہایاجارہا ہے۔رب زد فزد۔ہر زائر کی زبان سے بے ساختہ اس حکومت کے لئے دعائیں نکلتی ہیں۔یا رب العالمین اس موحد سرکار کو تادیر قائم رکھنا تاکہ تیرے دین برحق کی خدمت کرتی رہے۔آمین یا رب العالمین۔
اسی طرح غسل کعبہ کو بھی عملی تواتر کی قبیل سے ہے۔بعض روایات میں تصریح موجود ہے۔ کہ فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتوں کو توڑنے اور تصویروں کو مٹانے کے بعد کعبہ کو غسل دینے کا حکم دیا تھا۔
ان النبي صلي الله عليه وسلم امر بغسل الكعبة بعد ما كسر الاصنام وطمس التصاوير (١)
(تاریخ کعبۃ المعظمۃ ص 327 بحوالہ حسین عبدا للہ یا سلامہ بخاری)
یاد رہے کسوۃ کعبہ کے تیسرے باب میں کافی مواد موجود ہے۔جو فی الجملہ مفید ہے ملاحظہ ہو:(ص 227۔272)نیز غلاف صرف کعبہ کے احترام کی خاطر پہنایا جاتا ہے جو اسی کا خاصہ ہے۔(2)ترمذی میں حدیث ہے:
« وسترتم بيوتكم كما تستر الكعبة» (3)
یعنی'' قیامت کے نشانیوں میں سے ہے کہ تم اپنے گھروں کو ایسے ڈھانکو گے جیسے کعبہ ڈھانکا جاتا ہے۔''(4)
یہاں مذید عقلی توجیہات کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ مسلمان ہمیشہ احکام الٰہی کا پابند ہوتا ہے۔چاہے کسی شے کی مشروعیت اس کی سمجھ آئے یا نہ آئے۔
حجر اسود کے بارے میں ایسی روایات موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہ کہ جس نے اس کا برحق استلام کیا روز جزا اس کا گواہ بن کر آئےگا۔(5) اگرچہ ان روایات میں سے کئی ایک متکلم فیہ ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر وہ قابل حجت ہیں۔(فتح الباری (3/462) باب مازکر فی الحجر الاسود)
لیکن کعبہ کی بابت کوئی روایت نظر سے نہیں گزری جس میں اس بات کی تصریح ہو۔واللہ الھادی للصواب۔
1.الطحاوی (4/283) شرح معانی آثار
2. جس میں کسی دوسری عمارت کو شریک نہیں کرنا چاہیے اسی لئے وہ حتی المقدور اچھا ہوناچاہیے گھٹیا قسم کے کپڑوں سے کسی کا کیا احترام ہوگا۔(نعیم الحق نعیم)
3. ضعفۃ البانی الترمذی ابواب صفۃ القیامۃ رقم الباب (35) ح (2476) وضعیف سن الترمذی (2607)
4. کسی عمارت کو یا زیب وزینت کی خاطر ڈھانکا جاتا ہے۔(جیسے گھروں میں پردے لٹکانا) یا ادب واحترام کی خاطر(جیسے کعبۃ اللہ پر غلاف چڑھایا جاتا ہے) ترمذی کی اس روایت سے معلوم ہواکہ جب گھروں کو زیب وزینت کے خیال سے ڈھانکنا بھی شرعاً پسند نہیں کیا گیا۔ تو پھر عمارت کو کسی ادب واحترام کی خاطر ڈھانکنا کیسے جائز ہوسکتا ہے۔کیوں کہ اس سے کعبۃ اللہ کے امتیاز وتشخص کا مجروح ہونا اور اس کی خصوصیات میں دوسری عمارتوں کا شریک ہونا لازم آتا ہے۔(نعیم الحق نعیم)
5. صححہ الحاکم والذہبی واب خذیمہ وابن حجر الحاکم(457/1) (1680) وابن خزیمۃ (4/220۔221) عن ابن عباس وعبد للہ بن عمرو فتح الباری (3/462) شرح الحدیث (1597)
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب