السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہماری جماعت نے جوامام مسجد رکھاہے وہ خودنیک سیرت اورپارساہے لیکن اس کی بیوی کاچال چلن صحیح نہیں ہے اورنہ ہی اس کی اولاد اس کے کہنے پرچلتی ہے۔امام مسجدکوجوکچھ ملتا ہے وہ اپنے بچوں پرخرچ کردیتا ہے جوان کی غلط کاری پر تعاون کی ہی ایک صورت ہے۔ ایسے حالات میں اسے امام رکھاجاسکتا ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سوال میں ذکرکردہ امام کی صفات کہ وہ نیک سیرت اورپارساہے۔امامت کے لئے کافی ہیں ،اس سے مزید کو کریدکرنادرست نہیں ہے ۔بیوی کاچال چلن اوراولادکا اس کے کہنے پرنہ چلنا،امامت کے علاوہ رکاوٹ کاباعث نہیں ہے ، اگرچہ اس قسم کے امام کوچاہیے کہ انہیں سمجھانے میں کوتاہی نہ کرے اوران کی خیرخواہی کرتارہے ۔دیوث بن کر زندگی نہ گزارے آخر حضرت نوح اور حضرت لوطe نے بھی اپنی بیویوں سے گزارہ کیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں منصب نبوت سے الگ نہیں فرمایا۔ ہمیں بھی ایسے امام کوبرداشت کرناچاہیے اوراسے ’’منصب امامت ‘‘سے ہٹانے کے لئے تگ ودونہیں کرنی چاہیے ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب