سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(364) فوت شدہ کی طرف سے قربانی کرنا

  • 12355
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 1292

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کسی فوت شدہ کی طرف سے قربانی کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے، اگرقربانی کردی جائے توکیااہل خانہ اس کا گوشت استعمال نہیں کرسکتے، نیز قربانی کے لئے صرف دانتہ جانور ہوناچاہیے ،اس کے علاوہ چوگا یا چھگا جانورذبح نہیں کیاجاسکتا، کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زندہ کی طرف سے غائبانہ طورپر قربانی کرنے کاحدیث سے ثبوت ملتا ہے، جیسا کہ حجتہ الوداع کے موقع پررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے ایک گائے کی قربانی دی تھی، جبکہ انہیں اس بات کاعلم نہیں تھا۔     [صحیح بخاری ،الحج : ۱۷۰۹]

لیکن فوت شدہ کی طرف سے مستقل حیثیت سے انفرادی طورپر قربانی دینے کے متعلق کوئی صحیح اور صریح حدیث ہمیں نہیں مل سکی ۔اگرچہ امام ابوداؤد اورامام ترمذی نے میت کی طرف سے قربانی کاعنوان قائم کرکے حضرت علی  رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث بیان کی ہے کہ وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کیاکرتے تھے ۔اس کے متعلق سوال کرنے پر آپ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے بعدمجھے قربانی کرنے کی وصیت فرمائی تھی۔    [ابوداؤد ،الضحایا :۲۷۹۰]

ترمذی کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے بعد قربانی کرنے کاحکم دیاتھا۔[ترمذی ،الاضاحی :۱۴۹۵]

لیکن محدثین کرام نے تین خرابیوں کی وجہ سے اس حدیث کوناقابل حجت قراردیا ہے ۔جوحسب ذیل ہیں:

1۔  امام ترمذی اسے بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے کہ ہم اسے شریک کے واسطہ کے علاوہ اور کسی واسطہ سے نہیں پہچانتے اورشریک بن عبداللہ کاحافظہ متغیرہو گیا تھا، جیسا کہ اس کے متعلق حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’سچا ہے لیکن بکثرت غلطیاں کرنے والا، نیز جب سے اسے کوفہ کاقاضی بنایا گیا اس کاحافظہ متغیر ہوگیا تھا۔‘‘    [تقریب التہذیب، ص: ۱۴۵]

2۔  شریک راوی اپنے شیخ ابوالحسناء سے بیان کرتاہے کہ اس کے متعلق حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ  لکھتے ہیں کہ مجہول راوی ہے اوردرجہ سابع سے تعلق رکھتا ہے۔    [تقریب، ص: ۴۰۱]

3۔  حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیان کرنے والا ایک حنش نامی راوی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ سچا ہے، لیکن اس کے بے شمار اوہام ہیں اورمرسل روایات بیان کرتا ہے۔    [تقریب: ص ۸۵]

اس کے متعلق امام ابن حبان لکھتے ہیں کہ یہ کثیر الوہم ہے اورحضرت علی رضی اللہ عنہ سے بعض روایات کرنے میں متفرد ہے۔ اس بنا پر قابل حجت نہیں ہے۔    [عون المعبود، ص: ۵۱، ج ۳]

ان تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت سخت ضعیف ہونے کی وجہ سے قابل حجت نہیں۔اگراس کی صحت کوتسلیم بھی کر لیا جائے تووصیت کی صورت میں میت کی طرف سے قربانی کی جاسکتی ہے۔وصیت کے بغیر قربانی کرنامحل نظر ہے۔اس سلسلہ میں ایک اور روایت بھی پیش کی جاتی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مینڈھا ذبح کرتے وقت فرمایا کہ ’’یہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )اور اس کی امت کی طرف سے ہے۔‘‘    [ابوداؤد ،الضحایا:۲۷۹۶]

ایک روایت میں ہے کہ ’’یہ میری طرف سے اورمیری امت کے ہرشخص کی طرف سے ہے جوقربانی نہ کرسکاہو۔‘‘                                     [ترمذی ، الاضاحی :۱۵۲۱]

ایک روایت میں ہے کہ آپ نے دوجانورذبح کئے اور فرمایا کہ ’’ایک میری امت کے ہر اس شخص کے لئے ہے جس نے اللہ کے لئے توحیداورمیرے لئے شریعت پہنچادینے کی گواہی دی اوردوسرامحمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اوراس کی آل کی طرف سے ہے۔‘‘                             [ابن ماجہ ، الاضاحی :۳۱۲۲]

مذکورہ روایات بھی محدثین کرام کے قائم کردہ معیار صحت پرپوری نہیں اترتیں ۔اس کے علاوہ ان سے مراد خاص فوت شدہ ہی نہیں بلکہ مرنے والے اورزندہ ملے جلے مراد ہیں ،خاص انفرادی طورپر اکیلی میت کی طرف سے قربانی کرنے کی کوئی صحیح حدیث ہمیں نہیں مل سکی ۔

علامہ البانی  رحمہ اللہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے نادار افراد کی طرف سے جو قربانی دی ہے، وہ آپ کاخاصہ ہے، اس لئے کسی اورکے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ امت کے نادار افراد کی طرف سے قربانی دے اورنہ ہی اس پر قیاس کرکے کسی دوسرے کی طرف سے نماز ،روزہ ادا کیاجاسکتا ہے اورنہ ہی قرآن کریم کی تلاوت کی جاسکتی ہے کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس کاثبوت نہیں ملتا ۔     [ارواء الغلیل ،ص: ۳۵۴، ج ۳]

ہاں میت کی طرف سے صدقہ کرنا درست ہے، جیسا کہ حضرت سعد  رضی اللہ عنہ  کی حدیث سے ثابت ہوتاہے۔ صدقہ خواہ جانور کاہویاکسی اورچیزکااس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔اس قسم کے صدقہ سے خود بھی کھایا جا سکتا ہے، لیکن غربا اورمساکین کونظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ جیسا کہ حضرت ابورافع  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم جب دو جانور بطورقربانی ذبح کرتے تو ان سے مساکین کوکھلاتے اورخود بھی کھاتے اوراپنے اہل وعیال کوبھی اس سے محروم نہ کرتے ۔     [مسند امام احمد،ص۳۹۱، ج ۶]

اس سلسلہ میں صحیح مسلم کی حدیث بھی پیش کی جاتی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کاایک جانور ذبح کیااورفرمایا :’’اے اللہ! محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )، اس کی آل اوراس کی امت کی طرف سے قبول کر۔‘‘     [صحیح مسلم ،الاضاحی :۱۹۶۷]

اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ذبح کرتے وقت دعافرمائی ’’کہ اے اللہ !میری قربانی بھی قبول فرما اورمیری آل واولاد کی طرف سے قبول کربلکہ ساری امت کی قربانی کوقبول فرما ۔جانورذبح کرتے وقت یہ نہیں فرمایا کہ یہ جانور میری طرف سے ،میر ی آل کی طرف سے اورمیری امت کی طرف سے ،یعنی اس روایت میں دوسروں کی طرف سے کسی قربانی کرنے کاکوئی ذکر نہیں ہے۔    [واللہ اعلم]

سوال کے دوسرے حصے کے متعلق ہماری گزارشات یہ ہیں کہ اس حدیث میں قربانی کے جانور کی کم ازکم حالت کوبیان کیاگیا ہے، اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ دودانتا سے اوپر جوجانور چوگا یاچھگا ہے اس کی قربانی جائز نہیں ۔اس کی متعد د مثالیں احادیث میں ملتی ہیں جن میں کم ازکم نصاب کوبیان کیا گیا ہے، مثلاً: چوری کے متعلق فرمایا کہ ’’دس درہم کی چوری پرہاتھ کاٹاجائے گا یا پانچ اوقیہ سے کم میں زکوٰۃ نہیں ،اسی طرح پانچ وسق سے کم اجناس میں صدقہ نہیں یاپانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں۔‘‘ ان روایات میں چوری یازکوٰۃ کاکم ازکم نصاب بیان ہوا ہے، اسی طرح حدیث میں ہے کہ قربانی میں دودانتا جانور ذبح کرو،اس کامطلب یہ نہیں کہ اس سے زیادہ عمر والاجانور قربانی میں نہیں دیا جا سکتا، جیساکہ سوال میں تاثر دیا گیا ہے۔  

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:373

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ