سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(296) نکاح کے وقت کلمہ کو شرائط نکاح کا نام دینا

  • 12287
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 2871

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نکاح کے وقت کلمے پڑھائے جاتے ہیں اوراسے شرائط نکاح کانام دیاجاتا ہے قرآن وحدیث کی رو سے اس کی کیاحیثیت ہے۔ اور اگر کسی کانکاح ان کے بغیر پڑھادیا گیا توکیانکاح درست ہے نکاح کے وقت نکاح خواں لڑکی کے پاس جاکر ایجاب وقبول کراتا ہے کیا عورت کاولی ایجاب وقبول نہیں کراسکتا۔نیز بتائیں کہ نکاح میں گواہوں کی تعداد کیا ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں ان سوالات کا جواب دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نکاح کے وقت ایمان مجمل ،ایمان مفصل ،کلمۂ طیب ،کلمۂ شہادت ،کلمۂ تمجید ،کلمۂ توحید ،کلمۂ استغفار اورکلمۂ رد کفر وغیرہ کی تلقین کتاب وسنت سے ثابت نہیں ہے، بلکہ اس طرح کے ایمان وکلمات کاوجودہی محل نظر ہے ۔چہ جائیکہ انہیں نکاح کے موقع پر پڑھایاجائے ۔نکاح صرف ایجاب وقبول کانام ہے۔ عورت کی رضامندی ولی کی اجازت، حق مہر اور دوگواہوں کی موجودگی، نکاح کی شرائط ہیں ،جن کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا ،اس بنا پر اگرکسی کانکاح ان کلمات کے پڑھائے بغیر کردیاجاتا ہے تواس کے صحیح ہونے میں کوئی شک نہیں ہے بلکہ ہمارے نزدیک نکاح کے وقت دولہااوردلہن کوان چھ کلمات کی تلقین بدعت سیئہ ہے ان کے پڑھنے پڑھانے سے گناہ میں مبتلا ہونے کااندیشہ ہے ۔ہمارے ہاں نکاح کے وقت بہت سی غلط رسومات اداکی جاتی ہیں، ان میں بدترین رسم یہ ہے کہ نکاح خواں جومحرم نہیں ہوتا لڑکی کے پاس جاتا ہے اورایجاب کافریضہ سرانجام دیتا ہے، حالانکہ یہ کام اس کے محرم رشتہ داروں کے کرنے کا ہے۔ نکاح کی پیشکش کرنے کے لئے ابتدائی کلام کوایجاب کہاجاتاہے جوعام طورپر عورت کی طرف سے ہوتا ہے یاعورت کی طرف سے اس کا سرپرست ادا کرتا ہے یانکاح خواں ان کانمایندہ بن کر ایجاب کے کلمات کہتا ہے اس پیشکش کومنظورکرنے کے لئے جوکلام کی جاتی ہے اسے قبول کہاجاتا ہے اورقبول کافریضہ خوددولہا سرانجام دیتا ہے۔ یہی ایجاب و قبول نکاح کاستون ہے، یہ ایجاب وقبول اصالتاًاوروکالتاًدونوں طرح ادا کرناجائزہے، البتہ یہ کسی طرح بھی جائز نہیں ہے کہ نکاح خواں لڑکی کے پاس جائے اوراس سے نکاح کی پیشکش کرنے کے اختیارات حاصل کرے ،یہ کام لڑکی کاباپ ،چچا ،بھائی یا اورکوئی  محرم رشتہ دار سرانجام دے۔ نکاح کے لئے کم ازکم دوگواہوں کاہونا ضروری ہے جومسلمان عاقل اوربالغ ہوں، پھران گواہوں کے لئے طرفین کے ایجاب وقبول کی سماعت ضروری ہے۔ صرف ایک گواہ کی موجودگی میں نکاح منعقد نہیں ہوتا ،اگرگواہوں نے صرف ایک فریق کاکلام (ایجاب یاقبول )سنایا ایک گواہ نے ایک کااوردوسرے نے دوسرے کاتواس طرح بھی نکاح نہیں ہو گا، یعنی یہ امر لازم ہے کہ دونوں گواہ ایجاب وقبول کے وقت موجود رہیں اوراپنے کانوں سے ایجاب وقبول کی سماعت کریں۔ یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ شہادت ،نکاح کے لئے شرط ہے ۔حدیث میں ہے کہ سرپرست اوردودیانتدار گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ۔[بیہقی، ص: ۱۲۵،ج ۷]

البتہ اس میں اختلاف ہے کہ شہادت کی یہ شرط صحت نکاح کے لئے ہے یاتکمیل نکاح کے لئے ہمارے نزدیک صحت نکاح کے لئے شہادت بنیادی شرط ہے، چنانچہ اس وقت تک نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا جب تک کہ ایجاب وقبول کے وقت گواہ موجودنہ ہوں۔ امام ترمذی رحمہ اللہ  نے اس کی صراحت کی ہے ۔      (ترمذی، النکاح ، حدیث نمبر:۱۱۰۳) [واللہ اعلم ]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:312

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ