السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک خاتون اپنے گھر کے کام میں مصروف تھی کہ اس کے شوہر نے اس کی طرف ایک پرچی پھینکی اور باہر چلا گیا، عورت نے خیال کیاکہ کوئی حساب کی پرچی ہے اسے دوسرے دن پتہ چلا کہ اس پرتین مرتبہ طلاق کالفظ تحریر تھا۔ محلے کی کسی عورت نے بتایا کہ اس طرح طلاق نہیں ہوتی ہے کیونکہ تم نے اسے نہ پڑھا نہ ہی سنا اورنہ اسے ہاتھ لگایا ،ایک مولوی صاحب تشریف لائے توشوہر نے اس کے روبرواقرار کیا کہ اس نے طلاق دے دی تھی جس پروہ خاتون اپناگھر چھوڑ کر میکے چلی گئی ،اس پر تقریباً دوسال گزرچکے ہیں۔ عورت، مرد اور بچے سب پریشان ہیں۔ مردمسلسل اس کوشش میں ہے کہ خاتون واپس آجائے، کتاب و سنت کی روشنی میں اس الجھن کو حل کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
طلاق کالغوی معنی ’’بندھن کھول دینا ‘‘ہے اور شرعی طورپر نکاح کی گرہ کھول دینے کوطلاق کہاجاتا ہے۔ ہرمکلف و خود مختار شخص جب اپنی بیوی کواس کے برُے اخلاق یاکسی اوروجہ سے ناپسند کرتا ہوتو اسے طلاق دے سکتا ہے۔طلاق کے لئے صرف یہی شرط ہے کہ خاوند عاقل وبالغ ہواور اپنے عزم وارادہ سے صراحت کے ساتھ ا س لفظ کواستعمال کرے ۔اس کے نافذ ہونے کے لئے بیوی کے علم میں لاناضروری نہیں ہے، اگرآدمی دوگواہوں کی موجودگی میں اس کااقرار کرے توطلاق ہوجاتی ہے یاتحریر کرکے اپنے دستخط کردے تب بھی طلاق ہوجائے گی۔ بیوی تک اس کاپہنچانا یااس کاوصول کرنانہ کرنااس کے نفاذ کے لئے شرط نہیں ہے، چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’اگرکسی نے اپنی بیوی کوطلا ق لکھ دی کہ میری طرف سے تجھے طلاق ہے توفوراًطلاق واقع ہوجائے گی بیوی کویہ تحریر پہنچے یانہ پہنچے۔‘‘ [مغنی، ص: ۵۰۵،ج ۱۰]
اس لئے اگرکسی نے اپنی بیوی کوطلاق لکھی اوراسے روانہ نہ کیا یاحوالہ ڈاک کردیا کہیں راستہ میں گم ہوگئی یابیوی کے پاس پہنچی لیکن اس نے وصولی سے انکار کردیاوصول کرنے کے بعد پھاڑدیا یااس کے والدین میں سے کسی نے کہہ دیا کہ ہم اسے نہیں مانتے۔ان تمام صورتوں میں طلاق ہوجائے گی۔ اگر طلاق دینے کی نیت سے طلاق نویس کے پاس گیا اس نے طلاق نامہ لکھ دیا اور طلاق دہندہ نے نیچے اپنے دستخط ثبت کر دیے ۔لیکن ارسال کرنے کی بجائے فوراً اسے پھاڑدیا توبھی طلاق واقع ہوجائے گی، تاہم اس کاپھاڑ نا رجوع شمارہوگا ۔بہر حال طلاق دینا خاوند کاحق ہے ۔اگروہ کسی بھی صورت میں اسے استعمال کرتا ہے توہم اپنی طرف سے اس پرنارواپابندیاں لگانے کے مجاز نہیں ہیں،چنانچہ عرب شیوخ لکھتے ہیں :
’’طلاق دینے کے لئے کوئی شرط نہیں کہ خاوند اپنی بیوی کے سامنے طلاق کے الفاظ کہے اورنہ ہی یہ شرط ہے کہ بیوی کواس کا علم ہو۔ جب کبھی آدمی نے طلاق کے الفاظ بولے یاطلاق دی توطلاق صحیح ہو گی، اگرچہ اس کابیوی کوعلم نہ ہی ہو۔‘‘
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ ایک آدمی اپنی بیوی سے لمبے عرصے تک غائب رہا اوراسے طلاق دے دی جس کاعلم صرف اسے ہی ہے اوراگر وہ اپنی بیوی کونہ بتائے توکیا طلاق واقع ہوجائے گی؟ توشیخ نے جواب دیا طلاق واقع ہوجائے گی، اگرچہ وہ اپنی بیوی کواس کانہ بھی بتائے، اگرکوئی آدمی یہ کہہ دے کہ میں نے اپنی بیوی کوطلاق دے دی تواس سے اس کی بیوی کوطلاق ہو جائے گی، خواہ بیوی کواس کاعلم ہو یا نہ ہو ۔اس بنا پر فرض کریں اگر عورت کوطلاق کاعلم تین حیض گزرجانے کے بعد ہوتواس کی عدت پوری ہوچکی ہوگی حالانکہ ا سے اس کاعلم ہی نہیں تھا اس طرح اگرکوئی آدمی فوت ہوجائے اور اس کی بیوی کوخاوند کی وفات کاعلم عدت گزرنے کے بعد ہوتواس پرکوئی عدت نہیں، اس لئے عدت کی مدت توپہلے گزر چکی ہے۔ [فتاویٰ ،نکاح وطلاق :۴۲۸]
صورت مسئولہ میں کسی عورت کایہ مشورہ دیناغلط ہے کہ اس طرح طلاق نہیں ہوتی کیونکہ تم نے اسے پڑھا نہ سنا اور نہ ہی اسے ہاتھ لگایا ۔ایسے مشوروں کو’’دین خواتین ‘‘ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے ،پھرخاوند نے اس کااقرار بھی کرلیا ہے اوراس پر دوسال کاعرصہ بھی گزر چکا ہے اب مرد ،عورت اوربچوں کی پریشانی دورکرنے کایہی ایک طریقہ ہے کہ خاوند تجدید نکاح کے ساتھ رجوع کرے۔کتاب و سنت کی روشنی میں ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی ہوتی ہیں، اس لئے اگریہ پہلا یا دوسراواقعہ ہے توخاوند کورجوع کا حق ہے لیکن عدت گزرچکی ہے ،اب انہیں نئے حق مہر کے ساتھ نکاح کرناہوگا ۔ [واللہ اعلم ]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب