سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(160) قبر پر خیمہ لگانے کا شرعی حکم

  • 12118
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1527

سوال

(160) قبر پر خیمہ لگانے کا شرعی حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کتب حدیث میں یہ واقعہ بیان ہوا ہے کہ جب حسن بن حسن بن علی فوت ہوگئے تواس کی بیوی نے ان کی قبر پرسال بھر خیمہ لگائے رکھا، نیز حضرت عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما   نے ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما  کی قبر پرخیمہ لگاہوا دیکھا تووہاں بیٹھے ہوئے غلام کوکہا کہ اس خیمہ کواکھاڑ دیاجائے۔ (بخاری) سوال یہ ہے کہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کے دورمیں ایسے امور کہاں تک درست تھے اورکیوں ایسے امور سے قبر پرست حضرات دلیل لیتے ہیں کہ قبر وں پرمجاوربن کربیٹھنا جائز ہے وضاحت فرمائیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قبر پرستوں کی عجیب ذہنیت ہے کہ ناجائز امور کو جائز قراردینے کے لئے جن واقعات کوبطور دلیل پیش کیاجاتاہے، ان واقعات میں ہی ان کی تردید موجود ہے لیکن اس تردید کاذکر نہیں کیا جاتا۔ سوال میں ذکر کردہ واقعات صحیح بخاری میں موجودہیں لیکن سائل نے انہیں نامکمل ذکرکیا ہے۔ حقیقت حال کی وضاحت کے لئے ہم انہیں مکمل طورپر ذکرتے ہیں ۔۹۷ھ میں حضرت حسن  رضی اللہ عنہ  کے بیٹے حسن فوت ہوئے تھے توان کی بیوی نے ایک سال تک ان کی قبر پرخیمہ لگائے رکھا جب خیمہ اکھاڑ دیاگیا تو ہاتف غیبی سے آواز آئی ’’کیا اپنی گم شدہ چیز کوانہوں نے حاصل کر لیا۔‘‘ پھرجواب میں ایک اورآوازسنائی دی ’’حاصل کیاہوناتھا بلکہ مایوس ہوکر واپس چلے گئے ہیں ۔‘‘     [صحیح بخاری ،الجنائز،تعلیقاًباب نمبر: ۶۱]

اس روایت پر امام بخاری رحمہ اللہ  نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے کہ ’’قبروں کو جائے سجدہ قرار دینامکروہ ہے ۔‘‘واضح رہے کہ خیمہ لگانے والی خاتون حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  کی لخت جگر حضرت فاطمہ تھیں ۔انہیں اپنے خاوند سے انتہائی محبت تھی۔ شدت جذبات میں آکر محض اپنے دل کوتسلی دینے کے لئے انہوں نے اپنے خاوند کی قبرپرخیمہ لگایا ۔انہوں نے اہل قبر سے روحانی فیض حاصل کرنے کے لئے یہ کام نہیں کیا تھا اس کے باوجود ہاتف غیبی سے جوآوازآئی ہے اس سے اس عمل کے ناپسندیدہ ہونے کا واضح اشارہ ملتا ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے علامہ ابن المنیر کے حوالہ سے لکھا ہے۔    [فتح الباری، ص: ۲۵۶،ج ۳]

سوال میں ذکرکردہ دوسرے واقعہ کوبھی امام بخاری رحمہ اللہ  نے تعلیقاًذکرکیا ہے کہ حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہما  نے حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما  کی قبرپرخیمہ لگادیکھا توکہا اے غلام !اسے اکھاڑ دوکیونکہ اس کاعمل ہی اس پرسایہ فگن ہوگا ۔ [صحیح بخاری ،الجنائز، باب :۸۱]

ابن سعد نے اس روایت کوموصولاًذراتفصیل سے بیان کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  جب حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما  کی قبر کے پاس سے گزرے تووہاں خیمہ لگادیکھا توآپ نے فرمایا کہ اے غلام! اسے اکھاڑدو کیونکہ اس کاعمل ہی سایہ کے لئے کافی ہے۔ غلام نے کہا کہ میری مالکہ مجھ پرناراض ہوگی اور مارے گی آپ نے فرمایا ایسا نہیں ہو سکتا، چنانچہ اس نے خیمہ کوختم کر دیا۔    [فتح الباری،ص:۲۸۴،ج ۳]

ابن سعد کی بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خیمہ حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا نے لگوایا تھا لیکن وہ روایت صحیح نہیں ہے کیونکہ اس میں ایک مجہول راوی ہے، پھر حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا شرک کے معاملہ میں بہت حساس تھیں اگراس اثر کی صحت کوتسلیم بھی کرلیاجائے توبھی حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہما  کاموقف صحیح قرار پاتا ہے کیونکہ متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قبرپر عمارت بنانا حرام ہے۔ خیمہ لگانا بھی اسی قبیل سے ہے چونکہ اس سے شرک کا دروازہ کھلتا ہے، اس لئے دیگر وسائل شرک کی طرح یہ بھی حرام ہے ۔ بہرحال یہ دونوں واقعات قبرپرستوں کی دلیل نہیں بن سکتے بلکہ ان کے اندر ہی شرکیہ موقف کی تردید موجودہے ۔     [واللہ اعلم]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:195

تبصرے