سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(132) نماز عید کے بعد معانقہ کرنا اور مصافحہ کرنا

  • 12087
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 2179

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 نماز عید کے بعد مصافحہ ،معانقہ کرنے یا نہ کرنے کے متعلق صحیح مؤقف کی وضاحت کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہم نے اہل حدیث مجریہ ۲۰دسمبر۲۰۰۲ ء میں  اس مسئلہ کے متعلق تفصیلی فتویٰ لکھا تھا کہ نما ز عید کے بعد مصافحہ کرنے یاگلے ملنے کاثبوت کتاب وسنت سے نہیں ملتا ،یہ ایک رسم و رواج ہے جس سے گریز کرناچاہیے ۔البتہ عید کے بعد ایک دوسرے کو بایں الفاظ مبارک باد دی جاسکتی ہے’’تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا وَمِنْکُمْ‘‘یعنی ’’ اللہ  تعالیٰ ہم سے اورآپ سے (یہ عبادت )قبول فرمائے۔‘‘ اگرچہ اس کے متعلق بھی کوئی مرفوع روایت صحیح سند سے ثابت نہیں ہے، تاہم بعض صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم سے ان الفاظ کے ساتھ عید کے موقع پر مبارک باد دینا صحیح سند سے مروی ہے۔ اب ہم اس کے متعلق مزید گزارشات پیش کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں عید کے بعد جس دھوم دھام سے مصافحہ اورمعانقہ کیاجاتا ہے، یہ عمل رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بالکل ثابت نہیں ہے۔ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’جس عمل پرہماری طرف سے کوئی امرنہ ہووہ ردکردینے کے قابل ہے ۔‘‘     [صحیح مسلم ،الاقضیہ :۴۴۹۳]

                 پھر مصافحہ اور معانقہ ملاقات اوررخصت ہوتے وقت مشروع ہے لیکن عید کے موقع پر اکٹھے روانگی، پھرواپسی ہوتی ہے اس موقع پر مصافحہ اور معانقہ کاکوئی سبب اوروجہ معلوم نہیں ہوتی مولانا ثناء  اللہ  امر تسری رحمہ اللہ  سے کسی نے اس کے متعلق سوال کیا توآپ نے بڑے جامع الفاظ میں جواب دیا فرماتے ہیں: ’’مصافحہ بعد سلام آیا ہے،عید کے روز بھی بنیت تکمیل سلام مصافحہ تو جائز ہے، بنیت خصوص عید، بدعت ہے کیونکہ زمانۂ رسالت وخلافت میں مروج نہ تھا ۔‘‘    [فتاویٰ ثنائیہ ،ص:۴۵۰،ج ۱]

                امام احمد بن حنبل  رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ لوگ عیدین کے موقع پر’’تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا وَمِنْکُمْ‘ ‘سے ایک دوسرے کومبارک باد دیتے ہیں اس کی کیا حیثیت ہے؟ توآپ نے فرمایا: ’’ایسا کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اہل شام حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ  سے اسے بیان کرتے ہیں اس کی سند جید ہے۔‘‘ امام احمد رحمہ اللہ  سے یہ بھی روایت ہے کہ میں ابتدا میں کسی کوان الفاظ سے مبارک باد نہیں دیتا، البتہ اگرمجھے کوئی کہتا ہے تو اس کاجواب دے دیتاہوں علی بن ثابت کہتے ہیں کہ میں نے آج سے پینتیس سال قبل اس مبارک باد کے متعلق سوال کیا تھا توآپ نے فرمایا کہ ہمارے ہاں مدینہ میں عرصہ دراز سے یہ بات معروف ہے ۔ [مغنی ابن قدامہ، ص:۲۹۵،ج ۳]

 امام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ لوگ عید کے موقع پر ایک دوسرے کو ’’عید مبارک ‘‘کہتے ہیں کیاشرعی طورپر اس کی کوئی بنیاد ہے اگرہے تو اس کی وضاحت فرمائیں ۔امام صاحب نے بایں الفاظ جواب دیا: ’’عید کے دن نماز کے بعد ’’تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا وَمِنْکُمْ‘‘ سے ایک دوسرے کومبارک باددی جاسکتی ہے کیونکہ چند ایک صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم سے یہ عمل مروی ہے اورامام احمد بن حنبل رحمہ اللہ جیسے ائمۂ کرام نے بھی اس کی رخصت دی ہے اس کے متعلق رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حکم یانہی مروی نہیں ہے،اس لئے اس کے کرنے یانہ کرنے میں چنداں مضائقہ نہیں ہے۔ [فتاویٰ ابن تیمیہ ،ص:۲۵۳،ج۲۴ ]

                 امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  نے جن صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے عمل کی طرف اشارہ کیاہے اس کی تفصیل ہم پہلے فتویٰ میں بیان کر آئے ہیں، اسے دوبارہ ذکر کیاجاتا ہے :

٭  حضرت جبیر بن مطعم  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم جب عید کے دن ملتے تو مذکورہ الفاظ سے ایک دوسرے کومبارک باد دیتے تھے۔    [فتح الباری، ص:۴۴۶،ج ۳]

٭  محمد بن زیاد کہتے ہیں کہ میں حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ اوردیگر صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے ہمراہ تھا جب وہ عید پڑھ کرواپس ہوئے توانہوں نے انہی الفاظ کے ساتھ ایک دوسرے کومبارک باددی۔    [الجوہر النقی، ص: ۳۲۰، ج ۳]

                کتب حدیث میں بعض ایسی روایات بھی ملتی ہیں جن سے اس کی کراہت معلوم ہوتی ہے اوراسے اہل کتاب کاطریقہ بتایا گیا ہے لیکن وہ روایات محدثین کے قائم کردہ معیارصحت پرپورا نہیں اترتیں ۔    [بیہقی، ص: ۳۲۰،ج ۳]

 ان حقائق کے پیش نظر ’’تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا وَمِنْکُمْ‘‘ کے الفاظ سے عید کے موقع پر مبارک باد تودی جاسکتی ہے لیکن مصافحہ کرنااورگلے ملنا ایک رواج ہے جس کاثبوت محل نظر ہے۔     [و اللہ اعلم]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:168

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ