السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگرقرآن مجید سننا فرض ہے توامام کے پیچھے سورۂ فاتحہ کیوں پڑھی جاتی ہے، نیز یہ بتائیں کہ اگرصبح کی جماعت کھڑی ہوتوکیا صبح کی سنتیں ایک طرف کھڑے ہوکر پڑھی جاسکتی ہیں جہاں امام کی قراء ت نہ سنی جاتی ہو؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جس ذات اقدس نے قرآن پاک خاموشی سے سننا فرض قرار دیا ہے، اسی ذات باری تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے یہ حکم دیا ہے کہ سورۂ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ہے۔ [صحیح بخاری، الاذان: ۷۵۶]
دوران جماعت جب امام بآواز بلند قراء ت کررہا ہو تب بھی یہی حکم ہے، جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جب میں اونچی آواز سے قراء ت کروں تو(میرے پیچھے) سورۂ فاتحہ کے علاوہ اورکچھ نہ پڑھا کرو۔‘‘ [دارقطنی، ص:۳۱۹،ج ۱]
جوحضرات امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنے سے منع کرتے ہیں آخروہ بھی امام کی قراء ت کے دوران کچھ پڑھنے کی گنجائش نکال لیتے ہیں جیسا کہ بوقت قراء ت جماعت میں شامل ہونے والے کے لئے تکبیر تحریمہ اور دعا استفتاح، یعنی ’’سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ‘‘ پڑھنے کاجواز ان کے ہاں بھی مسلّم ہے۔ اس بنا پر امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنا اس ’’انصاف‘‘کے خلاف نہیں ہے جس کا اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکم دیا ہے اورنہ ہی حدیث میں اور قرآن پاک میں کوئی تضاد ہے، لہٰذا ہمیں قرآن کاسہارا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اختلاف نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ایسا کرنا ایمان کے منافی ہے ۔باقی رہا مسئلہ کہ جب صبح کی نماز کھڑی ہوتوایک طرف کھڑے ہوکر صبح کی سنتیں ادا کرنا تویہ بھی حدیث کے خلاف ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے کہ ’’جب فرض نماز کے لیے اقامت ہوجائے تواس وقت فرض نماز کے علاوہ کوئی نماز نہیں ہوتی۔‘‘ [صحیح مسلم، صلوٰۃ المسافرین: ۱۶۴۴ ]
اس حد یث سے ثابت ہوا کہ جب فرض نماز کی ادائیگی کے لئے تکبیر کہہ دی جائے تواس وقت سنت ادا کرناجائز نہیں ہے، اس حکم میں صبح کی سنتیں بھی شامل ہیں، اس لئے مسجد کے کونے یاستون کے پیچھے یامسجد کے باہر دروازے کے پاس کسی جگہ پر انہیں اد ا کرنادرست نہیں، بلکہ جماعت میں شامل ہوکر فراغت کے بعد فوت شدہ سنتوں کو ادا کیا جائے اس کا جوازاحادیث سے ملتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ دوران جماعت سنتیں پڑھنے والوں کوسزادیا کرتے تھے، جیسا کہ محدثین کرام نے وضاحت کی ہے۔(معالم السنن ،ص:۷۷ج۲) (واللہ اعلم )
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب