سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(170) وضوء میں گردن کا مسح کرنا مستحب نہیں

  • 11909
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-28
  • مشاہدات : 3572

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا گردن کا مسح کرنا مستحب کرنا مستحب ہے جیسے کہ بعض لوگ کہتے ہیں؟۔اخوکم :عبد الحکیم


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

گردن کا مسح کرنا مستحب نہیں کیونکہ یہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  سے کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے  نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے وضوء کا طریقہ نقل کیا ہے تو انہوں نے گردن کا مسح ذکر نہیں کیا‘اور استحباب شرعی حکم ہے جس کیلئے شرعی دلیل کا ہونا ضروری ہے او ردلیل کتاب و سنت صحیحہ اور مسلمانوں کا اجماع ہے۔

اور استحباب سنداً ضعیف  سے ثابت نہیں ہوتا تو جس نے اسے مستحب سمجھا ہے تو انہوں نے اس باب میں وارد بعض حدیثیں دیکھی ہونگی لیکن انکی سندوں کی تحقیق  نہیں کی تو رائے یا کسی ایسی حدیث سے جو احتجاج کے قابل نہ ہو شرعی مسائل ثابت کرنا جائز نہیں جیسے  کہ تمام المنہ ص(98) میں ہے کیونکہ استحباب میں قیاس یا ضعیف حدیث کاکوئی عمل دخل نہیں۔

امام ابن تیمیہ   رحمہ اللہ تعالیٰ   سے بھی پوچھا گیا :کیا وضوء میں گردن کا مسح نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  سے صحیح ثابت ہے یا صحابہ  میں سے کسی سے؟-

تو انہوں نے جواب دیا:’’نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  سے صحیح ثابت نہیں کہ انہوں  نے وضوء میں گردن کا مسح کیا ہو نہ ہی کسی صحیح حدیث میں یہ نقل ہوا ہے۔بلکہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے وضوء کے طریقے کے بارے میں جو احادیث صحیحہ مروی ہیں انمیں گردن کا مسح نہیں ہے۔اسی لئے مالک‘شافعی‘احمد اور جمہور علماء کرام نے ظاہر مذہب میں اسے مستحب نہیں سمجھا اور جس نے اسے مستحب سمجھا ہے تو اس نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  کے مروی اثر پر اعتماد کیا ہے یا حدیث جو نقلاً ضعیف ہے’’کہ انہوں نے اپنے سر کا مسح کیا یہاں تک کہ گدی تک پہنچے گئے‘‘‘اس جیسی روایتیں اعتماد کے قابل نہیں اور نہ ہی یہ احادیث ‘ثابت احادیث کے معارض بن سکتی ہیں تو جس نے گردن کا مسح ترک کیا تو اس کا وضو ء باتفاق علماء صحیح ہے‘‘-(فتاوٰی21/127)

امام ابن القيم رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :’’کہ گردن کے مسح کی کوئی حدیث نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  سے بالکل صحیح ثابت نہیں‘‘۔(زادالمعاد:1/68)

امام نوووی  رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں :نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس باب میں کوئی حدیث صحیح ثابت نہیں او ریہ سنت نہیں بلکہ بدعت ہے‘‘۔جیسے کہ نیل الاوطار(1/202-203)میں ہے۔

امام بیہقی   رحمہ اللہ تعالیٰ   نے السنن الکبری(1/60)میں گردن کے مسح کی مرفوع تمام  احادیث کو ضعیف کہا ہے۔

اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے جو روایت کیا جاتا ہے کہ وہ ایسا کرتے تھے تو اس کے لفظ یہ ہیں’’وہ جب سر کا  مسح کرتے تھے تو سر کے ساتھ گدی کا بھی مسح کرتے تھے‘‘-

عظیم آبادی عون المعبود(1/49)میں طلحہ بن مصرف کی حدیث جسمیں ’’حتی بلغ القذال‘‘کے لفظ ہیں ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:’’میں کہتا ہوں:حدیث ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ گردن کے مسح کے مستحب ہونے پر دلالت نہیں کرتی‘کیونکہ اسمیں ذکر  ہےکہ سر کے اگلے حصے سے لیکر سر کے آخر حصے تک مسح کیا‘‘۔یا گردن کے آخر تک ‘‘بنا بر اختلاف روایا تو اسمیں تو کوئی اختلاف نہیں‘کلام اس گردن کے مسح میں ہے جس کے لوگ عادی ہیں یہ تو سر کے مسح سے فارغ ہو کر انگلیوں کی پشت سے گردن کا مسح کرتے ہیں تو مسح رقبہ کی یہ کیفیت ثابت نہیں ‘نہ صحیح حدیث سے ‘نہ حسن حدیث سے بلکہ گردن کے مسح میں روایت شدہ تمام احادیث ضعیف ہیں جس کی بہت سے علماء تصریح کی ہے تو ان سے حجت پکڑنا درست نہیں۔

اور جو الشیخ ابن الہمام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضوء کے بارے میں وائل بن حجر کی حدیث نقل کی ہے:’’پھر سر کا مسح تین بار کیا‘اور ظاہر کانوں کا مسح تین بار کیا‘اور ظاہر گردن کا‘‘۔الحدیث ۔اور اس نے ترمذی کی طرف منسوب کیا تو یہ وہم ہے کیونکہ اس حدیث کا ترمذی میں کوئی وجود نہیں‘‘۔دیکھیں المغنی(1/119)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص383

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ