سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(167) وضوء یا غسل کے بعد اگر کوئی جگہ خشک وہ جائے تو کیا کرے؟

  • 11904
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 4043

سوال

(167) وضوء یا غسل کے بعد اگر کوئی جگہ خشک وہ جائے تو کیا کرے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کو ئی شخص وضوء یا غسل کرتا ہے اور اسکے بدن پر کوئی جگہ خشک رہ جاتی ہے تو اسے وضوء یا غسل لوٹانا پڑے گا یا گیلا ہاتھ پھیرے گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلہ کادار و مدار موالاۃ(اعضاء وضوء کو ایک دوسرے کے بعد دھونا)وضوء میں فرض ہے یا نہیں۔صحیح بات یہ ہے کہ موالاۃ فرض ہے جس کے دلائل ہم عنقریب ذکر کریں گے۔اگر کسی  کے اعضاء میں سے کوئی جگہ خشک رہ گئی پھر جب کچھ دیر بعد اس نے اس پر پانی گزارا تو اسکے اعضاء خشک ہو چکے  تھے تو اس پر وضوء دوبارہ کرنا پڑے گا اور اسی طرح اگر اس وضوء سے نماز پڑھی ہے تو اس نماز کا اعادہ  بھی لازم ہے۔

دلائل یہ ہیں:

1۔انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص  نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آیا او روہ وضوء کر چکا تھا او راس کے قدموں پر ناخن جتنی جگہ کو پانی نہیں پہنچا تھا تو رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے فرمایا :’’واپس جا کر اچھی طرح وضوء کر‘‘- (مسلم:/125) ابو داؤد (1/35)باب تفریق الوضوء)۔

2۔عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس طرح روایت کرتے ہیں فرمایا:’’واپس جا اور اپنا وضوء اچھی طرح کر‘‘۔

اور احمد کی روایت میں ہے:’’وہ واپس گیا اور وضوء کر کے اس نے نماز پڑھی‘‘۔(1/21/23‘/3/146)

امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ شرح مسلم میں کہتے ہیں :’’قاضی عیاض وغیرہ نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ موالات وضوء میں فرض ہے‘رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس قول سے:’’اپنا وضوء اچھی طرح کر‘‘۔اور یہ نہیں کہا جو جگہ چھوڑی ہے اسے دھو‘‘۔او ر یہ استدلال ضعیف یا باطل ہے‘آپکا ’’احسن وضوئك‘‘کہنے میں وضوء تکمیل کرنے اور نئے سرے سے وضوء کرنے دونوں کا احتمال ہے اور اسے ایک پر عمل کرنے سے کوئی بہتے نہیں ہو جاتا۔

میں کہتا ہوں:کہ امام نووی  رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول باطل ہے۔اور حدیث کو استیناف پر حمل کرنا فرض ہے کیونکہ صحیح حدیث ابو داؤد(1/36)برقم(175) میں نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعض صحابہ سے مروی ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک شخص کو نماز پڑھتے دیکھا او راسکے قدم پر درہم کے برابر جگہ پانی نہ پہنچنے کی وجہ سے چمک رہی تھی تو نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے نماز اور وضوء لوٹانے کا حکم دیا۔

تو یہ حدیث وجوب موالات میں نص صریح ہے۔والحمد للہ.

اسی لئے عظیم آبادی عون المعبود(1/68)میں اس حدیث کی تصحیح کے بعد کہتے ہیں:’’یہ حدیث وجوب موالات کی صریح دلیل ہے‘کیونکہ تھوڑی سی جگہ خشک رہ جانے کیوجہ سے وضوء دوبارہ کرنے کا حکم تب ہی دیا جا سکتا ہے جبکہ موالاۃ فرض ہو اور یہ مالک‘اوزاعی ‘احمد بن حنبل کا قول ہے اور امام شافعی کا بھی ایک قول یہی ہے او رمسند سےہم نے جو روایت ذکر کی وہ امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ کے قول کی تردید کرتی ہے۔یہ مقام غور و فکر ہے۔

اسمیں سے ایک روایت وہ بھی ہے جو ابن ابی شیبہ نے (1/41) میں قلابہ سے روایت کی ہے عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو نماز پڑھتے دیکھا او راس کے قدم کی  پشت پر بقدر ناخن کے جگہ رہ گئی تھی‘تو انہوں نے اسے وضوء و نماز کے اعادے کا حکم دیا۔

ان احادیث کی تحقیق کیلئے دیکھیں الارواء(1/126) رقم(86)

امام شوکانی   رحمہ اللہ تعالیٰ  نے نیل الاوطار(1/217/218) میں ان احادیث کی  تحقیق کی ہے او راس قول کو اختیار کرنے کا اشارہ کیا ہے۔

المغنی(1/158) میں ہے:موالات کے وجوب پر امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ نے تصریح فرمائی ہے او رامام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ   کی ود قول میں سے ایک یہی ہے ۔اور امام مالک کہتے ہیں کہ اگر تفریق عمداً کی ہے تو وضوء باطل ہے او راگر سہواً ہے تو باطل نہیں بوجہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے قول کے جب انہوں نے ایک  شخص کو نماز پڑھتے دیکھا او راسکے قدم کی پشت پر بقدر ایک درہم کے جگہ پر پانی نہیں پہنچا تھا تو نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے وضوء و نماز کے اعادے کا حکم دیا تھا‘اگر موالات فرض نہ ہوتی تو صرف ااسی جگہ کو دھونا کافی تھا۔او راسلئے بھی کہ یہ عبادت ہے اورحدث  اسکو فاسد کر دیتی ہے۔تو نماز کی طرح اسمیں بھی موالات شرط ہے۔آیت وجوب غسل پر دلالت کرتی ہے او رنبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسکی کیفیت بیان کر دی او رمجمل کی تفسیر فرما دی۔

اور اسے حکم دیا کہ وہ وضوء پے در پے کرے اور موالاۃ ترک کرنے والے کو اعادہ  کا حکم دیا۔اور غسل جنابت بمنزلہ ایک عضوکے ہے بخلاف وضوء کے۔تلخیص کے ساتھ۔

اور  اسی طرح فتاوٰی ابن عثیمین (4/141)میں ہے:اسکے معارض وہ روایت نہیں ہو سکتی جسے بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے (1/40)میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے وضوء کی تفریق روایت کی ہے‘اسی طرح فتح الباری (1/398)میں ہے او رغسل میں موالاۃ واجب نہیں کیونکہ وہ بمنزلہ ایک عضو  کے ہے اور اس روایت کی وجہ سے جو ابن ابی شیبہ (1/41) میں علاء سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  جنابت کا غسل کر کے نکلے تو آپ نے کندھے پر خشک جگہ دیکھی جسے پانی نہیں پہنچا تھا۔تو اپنے بالوں  سے ہاتھ گیلا کر کے اسے تر کر دیا۔اسکی سند ضعیف ہے ۔اسمں ابو علی الرجی مجہول ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص380

محدث فتویٰ

تبصرے