السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
طہارت و نماز اور دیگر عبادات میں نیت کا لفظوں میں ادا کرنا مستحب ہے؟جیسے کہ بعض فقہاء کہتے ہیں اور متأخرین نے بھی مستحسن کہا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نیت کا لفظوں میں ادا کرنا قبیح بدعت ہے‘علماء سابقین اور سلف صالحین میں سے کسی نے بھی اسے مستحب قرار نہیں دیا‘استحباب کیلیۓ شرعی دلیل چاہیے جو موجو د نہیں‘بلکہ ہم ان علماء کے اقوال نقل کرتے ہیں جنہوں نے اسے بدعت قرار دیا ہے۔
ابن عابدین رحمہ اللہ تعالیٰ نے رد المختار (1/279)میں کہا ہے :’’فتج میں بعض حفاظ سے منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح یا ضعیف کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں کہ انہوں نے نماز شروع کرتے وقت کہا ہوں میں فلاں نماز پڑھتا ہوں۔اور اسی طرح صحابہ و تابعین سے بھی ثابت نہیں۔حلیہ میں یہ لفظ زیادہ ہیں کہ ’’نہ ائمہ اربعہ سے‘‘۔بلکہ منقول یہی ہے کہ آپ نماز کیلئے کھڑے ہوتے تو ’’اللہ اکبر‘‘کہتے۔الدر المختار میں ہے:’’جب نبی مصطفٰی( صلی اللہ علیہ وسلم )اور صحابہ و تابعین سے منقول نہیں بلکہ اسے بدعت کہا گیا ہے‘‘۔
مرقاۃ(1/41) میں ہے:’’نیت کا لفظوں میں ادا کرنا جائز نہیں‘پس یہ بدعت ہے اور متابعت جس طرح کسی کام کے کرنے میں ہوتی ہے‘اسی طرح کسی کام کے ترک کرنے میں بھی ہوتی ہے تو جو کسی ایسے کام کو ہمیشہ کرتا ہے جو شارع علیہ السلام نے نہیں کیا تو وہ مبتدع ہے‘‘۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ تعالیٰ نے زادالمعاد (1/69) میں کہا ہے:’’فصل :نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے‘اس سے پہلے کچھ بھی نہیں کہتے تھے اور نیت لفظوں میں ادا نہیں فرماتے تھے اور نہ یہ کہتے تھے کہ میں نماز پڑھتا ہوں اللہ کے لیے‘قبلہ رخ ہو کر چار رکعات بطور امام یا مقتدی کے ‘ادا یا قضاء یا وقتی فرض۔یہ ایسی دس بدعات ہیں جس ایک لفظ بھی صحیح ‘ضعیف‘سند یا مرسل کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں۔نہ نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے‘نہ ہی تابعین رحمہ اللہ تعالیٰ میں سے کسی نے اور نہ ہی ائمہ اربعہ میں سے کسی نے ‘اسے اچھا سمجھا۔یہ تو متأخرین نے امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے اس قول سے دھوکہ کھایا ہے انہوں نے نماز کے بارے میں فرمایا:’’یا(نماز) روزے کی طرح نہیں تو نماز میں کوئی بھی ذکر کے بغیر داخل نہ ہو‘‘-
تو اس نے اس ذکر کو نمازی کا نیت کو لفظوں میں ادا کرنا سمجھا حالانکہ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کی مراد ذکر سے تکبیر تحریمہ تھی۔وہ کسی ایسے کام کو کیونکر مستحب سمجھ سکتے ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز میں ایک بار بھی نہیں کیا‘نہ خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ نے انکی سیرت انکا طریقہ تو یہ تھا اگر کسی کو ان سے اک حرف بھی ملے تو ہم اسے قبول کر لیں گے۔صحابہ کے طریقے سے بغیر کوئی طریقہ نہیں اور سنت وہی ہے جو انہوں نے صاحب شریعت صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کی۔
اغاثۃ اللہفان (1/136) میں فرماتے ہیں:’’فصل اول:نماز طہارت اور نیت کے بارے میں‘‘۔نیت کہتے ہیں کسی کام کے کرنے کا قصد و عزم کرنا۔اسکا محل دل ہے‘زبان سے اسکا کوئی تعلق نہیں۔اسی لئے لفظ نیت میں سے کچھ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے منقول نہیں‘اور نہ ہی ہم نے اس کا ذکر سنا ہے۔اور یہ جو طہارت و نماز کے شروع میں عبارتیں گھڑی گئی ہیں یہ اہل و سوسہ کیلئے شیطان نے اکھاڑ ا بنایا ہے جہاں انہیں روک کر عذاب دیتا رہتا ہے‘‘-پھر کہتے ہیں’’بلکہ ان سب سے بڑی تعجب کی بات یہ ہے کہ دوسرے کو اسکے احوال و قرائن سے اسکی نیت کا علم ہو جاتا ہے جب وہ کسی انسان کو انسان کو نماز کے وقت میں بیٹھا ہوا دیکھتا ہے اور لوگ اکٹھے ہو رہے ہوتے ہیں تو اسے علم ہو جاتا ہے کہ وہ نماز کا انتظار کر رہے ہے۔اور جب جماعت کھڑی ہوتی ہے اور یہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور لوگ بھی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں‘تو جان لیتا ہے کہ وہ نماز ہی کے لئے کھڑا ہوا ہے۔پھر عمدہ تفصیل کے بعد کہتے ہیں:
’’میں کہتا ہوں ہمارے شیخ (شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ ) کہتے ہیں:ان لوگوں میں بعض دس بدعات کا ارتکاب کرتے ہیں جو نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور نہ ہی صحابہ میں سے کسی نے کیا۔یہ کہتا ہے:’’ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ نیت کی میں نے نماز ظہر اس وقت کے فرض کی ادائیگی کی‘اللہ تعالیٰ کے لیے‘امام یا مقتدی ہوتے ہوئے چار رکعات کی قبلے کی طرف منہ کرتے ہوئے۔پھر اپنے اعضاء کو حرکت دیتا ہے اور ماتھا جھکا کر گردن کی رگیں اکڑاتا ہے اور اللہ اکبر ایسے پکارتا ہے جیسے دشمن کےبالمقابل کھڑا ہو اگر کسی کو عمر نوح مل جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام میں سے کسی کے فعل سے یہ ڈھونڈنےکی کوشش کرے تو کامیابی نہیں حاصل کر سکے گا سوائے اسکے کہ یہ صریح صاف جھوٹ بولے۔اگر اس کام میں بھلائی ہوتی تو وہ ضرور ہم سے پہلے کرتے اور ہمیں بھی کرنے کا کہتے۔جو کچھ یہ کرتے ہیں اگر ہدایت یہی ہوتی تو پھر وہ اس ہدایت سے محروم رہے اور اگر ہدایت اور حق وہی ہے جس پر وہ عمل پیرا تھے تو پھرحق کے بعد سوائے گمراہی کے اور کیا ہو سکتا ہے‘‘۔
مراجعہ کریں یہ بڑی عجیب بحث ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے الفتاوٰی(18/262) میں اس باب میں بڑی تفصیل سے لب کشائی فرمائی ہے۔
تو نیت کا محل دل ہے اگر دل سے نیت کر لی ہے اور زبان سے کچھ بھی نہ کہا ہو تو باتفاق علماء یہ کافی ہے۔
بعض اصحاب شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک تو جیہ بیان کی ہے لیکن و ہ اس میں غلطی پر ہیں۔الخ۔
اور (22/263~238)میں ہے:’’نیت قصد اور ارادے کو کہتے ہیں اور قصد وار دہ دل کے کرنے کا کام ہے ‘زبان کا نہیں اس پر سب اہل عقل متفق ہیں۔اگر کسی نے دل سے نیت کی تو اس کی نیت ائمہ اربعہ رحمہ اللہ تعالیٰ ‘تمام ائمہ مسلمین اولین و آخرین کے نزدیک درست ہے اور اسمیں کسی بھی قابل اقتداء اور فتوٰی بزرگ نے اختلاف نہیں کیا۔لیکن بعض متاخرین نے اسے واجب کہا ہے لیکن قول غلط اور اجماع مسلمین کے صریح خلاف ہے۔جب سنت رسول اور سنت صحابہ کو جاننے والے دین اسلام کا بداہتہ علم رکھتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ صحابہ او رتابعین کیسی نماز پڑھتے تھے جو بھی یہ جانتے ہیں تو وہ تلفظ با لنیہ نہیں کرتے نہ انہیں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکا حکم دیا تھا او رنہ ہی صحابہ کرام میں سے کسی کو سکھایا بلکہ مسی الصلاۃ (نماز پڑھنے والے صحابی)کو یہی سکھایا کہ جب تو نماز کیلئے کھڑا ہو تو اللہ اکبر کہہ‘‘۔الحدیث۔
اور کسی مسلمان نے یہ نقل نہیں کیا ‘نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اور نہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی سے‘نہ سری طور پر نہ جہری طور پر اور نہ ہی اس کا حکم دیا۔
اور یہ بھی معلوم ہے اس کے نقل کرنے کے اسباب بکثرت تھے اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو ضرور نقل ہوتی۔الخ۔
اور السنن و المبتدعات (1/28) میں:’’اور اسی طرح لوگوں کاکہنا کہ ’’نیت کی میں نے سنن و ضوء کی یا فرائض کی‘‘یہ بدعات میں سے ہے‘نیت لفظوں میں منہ سے ادا کرنا کوئی مستحب نہیں‘نہ وضوء میں‘نہ غسل میں‘نہ نماز کی تکبیر تحریمہ کے وقت اور نہ اور کسی عبادت میں بلکہ اسکا محل دل ہے۔
اور(1/31) میں ہے:’’پھر نیت کرنا فرض ہے اور اس کا محل دل ہے تو کسی کا یہ کہنا کہ میں نے حدث اصغر یا اکبر اٹھانے کی نیت کی‘‘یہ مشروع نہیں بلکہ بدعت ہے۔‘‘
اور عمدۃ الرعایہ م حاشیہ شرح الوقایہ(1/159) میں ہے’’یہاں تین صورتیں ہیں۔اول:دل کی نیت کو کافی سمجھنا او ر یہ بالاتفاق کفایت کرتی ہے اور طریقہ مشروع اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب سے منقول ہے‘انمیں سے کسی سے یہ منقول نہیں کہ انہوں نے ’’میں نے نیت کی ‘یا میں نیت کرتا فلاں نماز کی‘فلاں وقت میں‘‘وغیرہ کہا ہو۔یہی ثابت کیا ہے ابن الہمام نے فتح القدیر (1/332) میں ابن القیم نے زاد المعاد میں اور میں نے’’السعایہ‘‘اور میرے رسالے’’احکام النفاس فی ادا ء الاذکار بلسان الفارس ‘‘میں تفصیل سے بیان ہے۔
دوک:صرف زبان سے کہنے پر کفایت کرنا۔یہ بالاتفاق کافی نہیں ہے۔
سوم:دونوں کو جمع کرنا‘تو یہ نہ سنت ہے نہ مستحب۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب