سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(70) مسجد ضرار

  • 11878
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-17
  • مشاہدات : 1121

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ارشاد باری تعالیٰ﴿لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ...﴾

کیا معنی ہیں اور عمارت سےکیا مقصود ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اس مسجد ضرار کا ذدر کیا ہےجسےمنافقوں نے مسجد قبا کےقریب تعمیرکیاتھا اور جس کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت  کریمہ میں ذکر کیا ہے:

﴿وَالَّذينَ اتَّخَذوا مَسجِدًا ضِر‌ارً‌ا وَكُفرً‌ا وَتَفر‌يقًا بَينَ المُؤمِنينَ وَإِر‌صادًا لِمَن حارَ‌بَ اللَّهَ وَرَ‌سولَهُ مِن قَبلُ ۚ وَلَيَحلِفُنَّ إِن أَرَ‌دنا إِلَّا الحُسنىٰ ۖ وَاللَّهُ يَشهَدُ إِنَّهُم لَكـٰذِبونَ ﴿١٠٧﴾... سورة التوبة

’’ اور بعض ایسے ہیں جنہوں نے ان اغراض کے لیے مسجد بنائی ہے کہ ضرر پہنچائیں اور کفر کی باتیں کریں اور ایمانداروں میں تفریق ڈالیں اور اس شخص کے قیام کا سامان کریں جو اس سے پہلے سے اللہ اور رسول کا مخالف ہے، اور قسمیں کھا جائیں گے کہ بجز بھلائی کے اور ہماری کچھ نیت نہیں، اور اللہ گواه ہے کہ وه بالکل جھوٹے ہیں ۔‘‘

اللہ تعالیٰ نےاپنےنبی ﷺ سےمخاطب ہوتے ہوئے فرمایا:

﴿لا تَقُم فيهِ أَبَدًا ۚ لَمَسجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقوىٰ مِن أَوَّلِ يَومٍ أَحَقُّ أَن تَقومَ فيهِ ۚ فيهِ رِ‌جالٌ يُحِبّونَ أَن يَتَطَهَّر‌وا ۚ وَاللَّهُ يُحِبُّ المُطَّهِّر‌ينَ ﴿١٠٨ أَفَمَن أَسَّسَ بُنيـٰنَهُ عَلىٰ تَقوىٰ مِنَ اللَّهِ وَرِ‌ضو‌ٰنٍ خَيرٌ‌ أَم مَن أَسَّسَ بُنيـٰنَهُ عَلىٰ شَفا جُرُ‌فٍ هارٍ‌ فَانهارَ‌ بِهِ فى نارِ‌ جَهَنَّمَ ۗ وَاللَّهُ لا يَهدِى القَومَ الظّـٰلِمينَ ﴿١٠٩ لا يَزالُ بُنيـٰنُهُمُ الَّذى بَنَوا ر‌يبَةً فى قُلوبِهِم إِلّا أَن تَقَطَّعَ قُلوبُهُم ۗ وَاللَّهُ عَليمٌ حَكيمٌ ﴿١١٠﴾... سورة التوبة

’’ آپ اس میں کبھی کھڑے نہ ہوں۔ البتہ جس مسجد کی بنیاد اول دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے وه اس لائق ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں، اس میں ایسے آدمی ہیں کہ وه خوب پاک ہونے کو پسند کرتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ خوب پاک ہونے والوں کو پسند کرتا ہے  -پھر آیا ایسا شخص بہتر ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ سے ڈرنے پر اور اللہ کی خوشنودی پر رکھی ہو، یا وه شخص، کہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد کسی گھاٹی کے کنارے پر جو کہ گرنے ہی کو ہو، رکھی ہو، پھر وه اس کو لے کر آتش دوزخ میں گر پڑے، اور اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو سمجھ ہی نہیں دیتا -ان کی یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں شک کی بنیاد پر (کانٹا بن کر) کھٹکتی رہے گی، ہاں مگر ان کے دل ہی اگر پاش پاش ہوجائیں تو خیر، اور اللہ تعالیٰ بڑا علم والا بڑی حکمت والا ہے ۔ ‘‘

تو عمارت سےمراد یہ مسجد ہے جسے ان منافقوں نے ااپنی ان اغراض کےلیے بنایا تھا جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے‘ یعنی نقصان پہنچانے کےلئے کفر کااظہار کرنے کےلیے مومنوں میں  تفرقہ پیداکرنے کےلیے اور اللہ اور اس کےرسول سے جنگ کرنے والوں  کےلیے ایک گھات مہیا کرنے  کےلئے! اور ارشاد باری تعالیٰ :

﴿لا يَزالُ بُنيـٰنُهُمُ الَّذى بَنَوا ر‌يبَةً فى قُلوبِهِم إِلّا أَن تَقَطَّعَ قُلوبُهُم...﴿١١٠﴾... سورةالتوبة

’’ ان کی یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں شک کی بنیاد پر (کانٹا بن کر) کھٹکتی رہے گی، ہاں مگر ان کے دل ہی اگر پاش پاش ہوجائیں تو خیر۔‘‘

کے معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ ہمیشہ شک اور قلق واضطراب میں رہیں گے کیونکہ یہ عمارت ایسی عمارت تھی جسے معصیت کے  لیے تعمیر کیاگیاتھا‘ جس کی وجہ سے ان لوگوں اس تاثیر برقرار رہے گی۔ ان کے دل ہمیشہ قلق واضطراب ریب وحزن اورغم وفکر میں مبتلا رہیں گے الایہ کہ ان کے دل پاش پاش ہوجائیں۔ یعنی ان کایہ قلق واضطراب اورحزن  وملال موت سے پہلے ختم نہیں ہوگا اور موت سے یہ اگریہ قلق واضطراب اور غم وفکر دور ہوجائے گا تو اس  کےبعد عذاب شدید سےانہیں دوچار ہونا پڑے گا ‘ والعیاذ باللہ! اور اس آیت کریمہ کےآخر میں فرمایا کہ( واللہ علیم حکیم) یعنی اللہ  اس  علم وحکمت  کےساتھ موصوف ہے جس کو یہ مبارک نام متضمن ہیں کیونکہ اللہ عزوجل کے اسمائےحسنیٰ اللہ تعالیٰ کی ذات  پر دلالت کو متضمن ہیں نیز یہاسماء ان  صفات کو بھی شامل ہیں جو مطابقت (قیاس) یا تضمنی اور التزامی دلالت کے ذریعے سےحاصل ہوں۔ پس علیم وہ ذات ہےجس سے زمین وآسمان کی کوئی چیز بھی مخفی نہیں جو اپنے سابق ولاحق اورازلی وابدی کےساتھ ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہےکہ  نہ اسے  جہالت سے سابقہ پڑتا ہے اور نہ اسےنسیان ہی لاحق ہوتا ہے۔  اور  حکیم وہ ہے کہ حکمت بالغہ کےساتھ اس نے یہ کارخانہ قدرت ترتیب دیا ہے۔ حکمت کےمعنی یہ ہوتے ہیں کہ تمام امور کو ان کی اپنی جگہ پررکھا جائے۔حکیم کا لفظ حکم سےمشتق ہوسکتا ہےتو اس صورت میں حکیم کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ  وہ ذات گرامی جس کا  دنیا وآخرت میں حکم چلتا ہے۔ اور حکم سے حکم کونی وشرعی دونوں مراد ہیں اور اس کے یہ دونوں حکم ہی ہرحال میں حکمت پر مبنی ہیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص71

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ