السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص کی داڑھی اتنی طو یل ہے کہ نا ف سے نیچے تک ہے اور گھنی اتنی کہ رخسا ر بھی نظر نہیں آتے ایسی صورت حا ل کے پیش نظر داڑھی کو رخسا روں سے صا ف کر نا اور نا ف کے نیچے سے رکا وٹ دینا درست ہے ۔(حا جی ضیا ء الدین بہا و لنگر خریداری نمبر1401)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
داڑھی کے متعلق ہما را مو قف یہ ہے کہ اسے اپنی حا لت پر رہنے دیا جا ئے اور اس کے سا تھ کسی طرف سے بھی چھیڑ چھا ڑ نہ کی جائے کیو نکہ ۔
(1)اسکے متعلق امر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امروجو ب کے لیے ہے الا یہ کہ قرینہ صا رفہ ہو ۔
(2)اس سے چھیڑ چھا ڑ کر نا یہو د و نصا ری اور مشر کین و مجوس سے ہمنوئی ہے جبکہ ہمیں ان کی اس سلسلہ میں مخا لفت کر نے کا حکم ہے ۔
(3)اس کی کا نٹ چھا نٹ تخلیق الہیہ میں تبد یلی کر نا ہے جس سے ہمیں منع کیا گیا ہے کیوں کہ ایسا کر نا ایک شیطا نی حر بہ ہے ۔(4/النسا ء :119)
(4)داڑھی کا بڑھا نا امو ر فطرت ہے اس لیے دا ڑھی کو فطرتی حا لت میں رہنے دیا جا ئے اور اس سے غیر فطر تی عمل نہ کیا جا ئے ۔
(5)ہمیں نسوا نی مشا بہت اختیا ر کر نے سے منع کیا گیا ہے جبکہ دا ڑھی منڈوا نے سے عورتوں سے مشا بہت ہو تی ہے اس سے محفو ظ رہنے کا یہی طریقہ ہے کہ اسے اپنی حا لت پر ہنے دیا جا ئے ۔
(6)خلیفہ را شد حضرت عمر العزیز رحمۃ اللہ علیہ کے فر ما ن کے مطا بق دا ڑھی منڈوا نا "مثلہ " کے مترادف ہے اور اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فر ما یا ہے ،
(7)داڑھی منڈوا نا ایسا قبیح فعل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مر تکب دوایرا نی با شندوں کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا بھی گو ارا نہیں کیا تھا ۔ صورت مسئو لہ میں بعض اہل علم با یں طو ر پر نر م گو شہ رکھتے ہیں کہ ۔
(1) داڑھی کے متعلق مند ر جہ ذیل تین صحا بہ کرا م رضوان اللہ عنہم اجمعین سے امر نبو ی منقو ل ہے ۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (صحیح بخا ری :اللبا س 5892)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (صحیح مسلم :طہا رۃ 603)
حضرت ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہ (مجمع الزوئد :ج 5ص169)
جب کہ یہ تینوں اکا بر کے متعلق روا یا ت میں ہے کہ با لعمو م یا خا ص موا قع پر ایک مشت سے زا ئد دا ڑھی اور رخسا روں کے با ل کٹو ا دیتے تھے ۔
حضرت ابو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (صحیح بخا ر ی 592) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (طبقات ابن سعد ج 4 ص 334)حضرت ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہ (مصنف ابن ابی شیبہ :ج 4ص85)
اگر چہ ہما ر ے نزدیک قا بل عمل راوی کی روا یت نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روا یت ہے ۔
(2)امام ما لک رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ اگر آدمی کی داڑھی بہت زیا دہ طو یل ہو جا ئے تو کیا کر ے ؟آپ نے فتویٰ دیا کہ ایسی حا لت میں اسے اعتدال پر لا نے کے لیے کا ٹا جا سکتا ہے ۔( شر ح مؤطا :ج 7ص226)
(3)حا فظ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام طبر ی کے حو الہ سے لکھا ہے کہ اگر آدمی اپنی دا ڑھی کو اپنی حا لت پر چھو ڑ دے اور اس کا طو ل و عرض اس حد تک بڑھ جا ئے کہ لو گو ں کے ہاں اضحو کہ رو ز گا ر بن جا ئے تو ایسی حا لت میں اسے کا ٹا جا سکتا ہے ۔(فتح البا ری :ج 10ص43)
(4)حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق روا یا ت میں ہے کہ ان کے پا س ایک شخص لا یا گیا جس کی دا ڑھی حد سے بڑھی ہو ئی تھی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے معقول حد کے نیچے سے کا ٹ دیا تھا حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے طبری رحمۃ اللہ علیہ کے حوا لہ سے بیا ن کیا ہے ۔(واللہ اعلم)
اگر کو ئی اس قسم کے دلا ئل سے مطمئن ہو تو مذکو رہ شخص کے متعلق نر م گو شہ رکھنے میں چندا ں حر ج نہیں ہے بصورت دیگر اسے استقا مت کا مظا ہرہ کر نا چا ہیے تا کہ سنت کی حفا ظت پر اللہ کے ہا ں بے پا یا اجر و ثواب کی امید کی جا سکے ہم نے ایسے بز رگ بھی دیکھے ہیں کہ دو را ن نماز جب رکو ع کر تے تھے تو ان کی داڑھی زمین پر لگتی تھی اب وہ دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں اللہ تعا لیٰ انہیں اپنے ہان کر وٹ کرو ٹ رحمت سے نوا زے آمین ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب