السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
محمد صا دق بذر یعہ ای میل سوا ل کر تے ہیں کہ اہل حدیث مجر یہ یکم ما رچ شما رہ نمبر 9میں سر کے با لو ں کے متعلق آپ کا فتویٰ شا ئع ہو ا ہے لیکن اس میں کسی کتاب کا حو الہ ندا رد برا ہ کر م با حوا لہ تفصیل سے ہماری را ہنما ئی فر ما ئی ۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اہل حدیث کے صفحا ت کی کمی کے پیش نظر بعض اوقا ت فتویٰ میں حوا لہ دینے کا التزا م نہیں کیا جا تا اب وہی فتویٰ ذرا تفصیل کے سا تھ با حو الہ ہد یہ قا ر ئین ہے ۔سر کے با لو ں کے متعلق ہما ر ی اکثر یت مغر بی تہذیب سے متا ثر ہے اور شر عی ہدا یا ت سے آزاد ہو کر انہیں بطو ر فیشن رکھنے کی شو قین ہے اکثر دیکھا جا تا ہے کہ سر کے اگلے حصے کے با ل بڑھے ہو تے ہیں اور ان میں ٹیڑھی ما نگ نکا لی ہو تی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں با لو ں کے متعلق مند ر جہ ذیل ہدا یا ت دی ہیں (1)سر کے تمام با ل رکھے جا ئیں یا سب مو نڈھ دئیے جا ئیں حدیث میں ہے سر کے با ل سب رکھے جا ئیں یا سب مو نڈ ھے جا ئیں ۔(صحیح مسلم کتا ب اللبا س )
حضرت امام نسا ئی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر با یں الفا ظ عنوا ن قا ئم کیا ہے سر کے با لو ں کے مو نڈ ھنے کی اجا زت کا بیان حضرت جعفر طیا ر ہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جب شہا دت ہو ئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تعز یت کے لیے گئے ان کے بچو ں کو دیکھا کہ ان کے سر کے با ل حد سے بڑ ھے ہو ئے تھے آپ نے حجا م کو بلا کر تمام بچو ں کے با ل منڈوا دئیے ۔(مسند امام احمد :1/204)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ چو نکہ کثر ت غسل کے عا دی تھے اس لیے وہ عا م طور پر اپنے سر کے با لو ں کو صا ف کرا دیا کر تے تھے ۔(نسا ئی ابو داؤد ۔ترمذی )
ان روا یا ت کا حا صل یہ ہے کہ سر کے با ل مو نڈھے جا سکتے ہیں اور شریعت نے ایسا کر نے کی اجا زت دی ہے البتہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ آپ نے با ل رکھے ہو ئے تھے اور ان کی مقدا ر کے متعلق حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیا ن ہے کہ آپ کے با ل نصف کا نو ں تک تھے ۔(ابو دا ؤد کتا ب التر جل )
حضرت عا ئشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان اس سے ذرا مختلف ہے فر ما تی ہیں :" کہ آپ کے با ل جمہ سے اوپر اور فرہ سے نیچے ہو تے تھے ۔( مسند امام احمد :6/ٍ118)
جمہ وہ با ل ہیں جو کند ھوں تک پہنچ جا ئیں اور فر ہ وہ با ل ہیں جو کا نو ں تک رہیں ۔ مختلف حا لا ت مین آپ کے با لو ں کی مقدار مختلف ہو تی تھی جب انہیں کا ٹ لیتے تو ان کی مقدار نصف کا نو ں تک ہو تی اور جب کاٹنے میں د یر ہو جا تی تو کبھی کا نوں اور گر دن کے در میا ن تک رہتے (صحیح مسلم )اور کبھی کا نو ں اور کندھوں کے در میا ن پہنچ جا تے ۔ (سنن ابن ما جہ ) اور بعض اوقا ت کند ھوں تک بھی پہنچ جا تے ۔(بخا ری کتا ب اللبا س )
سفر کی حا لت میں اگر با ل کا ٹنے کا مو قع نہ ملتا تو بعض اوقا ت آپ با ل گیسو ؤں کی شکل اختیا ر کر جا تے تھے جیسا کہ فتح مکہ کے وقت جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام ھا نی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر رو نق افر وز ہو ئے تو آپ کے چا ر گیسو تھے ۔(سنن ابی داؤد) جو حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عملی سنت کو پسند کر تے ہیں انہیں چا ہیے کہ "ابو جنڈل " بننے کے بجا ئے درج ذیل ہدا یا ت کو پیش نظر رکھیں ۔
(2)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرا می ہے کہ جس کے با ل ہوق ں وہ ان کا اکرا م و احترا م کر ے ۔(ابو داؤد :کتا ب التر جل )
با لو ں کے اکرا م میں چند چیز یں شا مل ہیں جن کی تفصیل یہ ہے ۔ (1) انہیں حد سے تجا وز نہ کر نے دے جیسا کہ حضرت خر یم اسدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا تھا کہ خر یم اسدی اچھا آد می ہے اگر اس کے با ل حد سے بڑھے ہو ئے نہ ہو ں اور اس کی چا ر ٹخنوں سے نیچی نہ ہو ۔ (مسند اما م احمد : 4/180)
(2)اپنے با لوں کو سنوا ر کر رکھے سوا ر نے میں تین چیز یں شا مل ہیں ۔
1۔تیل لگانا 2۔کنگھی کرنا 3۔درمیان سے مانگ نکالنا
3۔اپنے سر کو کسی کپڑے یا ٹوپی سے ڈھانک کر رکھے۔ کیونکہ ننگے سر گھومتے پھرنا کوئی شریفانہ عادت نہیں ہے۔بلکہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے ننگے سر گھومنے پھرنے کو فرنگی عادت اور مغربی تہذیب قراار دیا جیسے آج مسلمانوں بالخصوص نوجوانوں نے اپنا لیا ہے۔(تمام الممۃ :164)
یہ آخری ہدایت اگرچہ مال رکھنے یا نہ رکھنے دونوں حالتوں کو شامل ہے۔البتہ اگر بال رکھے ہوں تو بایں حالت ننگے سر گھومتے پھرنا بہت برا لگتا ہے۔ پھر ایسا کرنا رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات مبارکہ کے بھی خلاف ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ جن حضرات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس عملی سنت سے پیار ہے۔وہ اس سے متعلقہ دوسری ہدایات کو بھی پیش نظر رکھ کریں۔(واللہ اعلم بالصواب)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب