السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
صوبہ بلو چستا ن سے عبد الر حمن کھو سہ لکھتے ہیں کہ : (1)دست شنا سی کے متعلق شر عی کا حکم کیا ہے ۔
کیا ٹو ٹے ہو ئے بر تن کو چا ندی کی تا ر سے جو ڑ ا جا سکتا ہے ۔
(3) بو قت ضرورت غیر مسلم کے بر تن استعما ل کر نا شر عاً کیا حیثیت رکھتا ہے ۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کپڑا یا ہا تھ دیکھ کر یا زا ئحہ بنا کر یا مر یض سے اس کا اور اس کی والدہ کا نا م پو چھ کر یا کتا ب کھو ل کر غیب کی خبر یں دینے والے کو عر بی زبا ن ممیں عرا ف یا کا ہن کہتے ہیں ان کے پا س جا کر ان سے معلو ما ت لینا اور ان کی تصدیق کر نے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فر ما یا ہے چنانچہ حدیث میں ہے کہ جو شخص کسی غیب کی خبر یں بتا نے والے کے پا س گیا اور اس سے کچھ پو چھا تو اس کی چا لیس راتو ں کی نما زیں قبو ل نہیں ہو گی ۔(صحیح مسلم :کتا ب الصوم )
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی شنا عت با یں الفا ظ بیا ن کی ہے :" کہ جو شخص کسی کا ہن کے پا س گیا اور اس کی با ت کو سچ سمجھا تو اس نے گویا ان تعلما ت کا انکا ر کر دیا جو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نا ز ل ہو ئیں بعض روایا ت میں ہے کہ وہ تعلما ت نبو ی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیزا ر ہو گیا ۔(مسند امام احمد رحمۃ اللہ علیہ : 2/408)
غیب کا علم صرف اللہ تعا لیٰ کو ہے اور جو شخص اس قسم کا دعو یٰ کر تا ہے تو وہ جھو ٹا ہے ایک مسلما ن کو ان کے پا س جا کر اپنے ایما ن و اخلا ق اور غیر ت و عزت کو نیلا م نہیں کر نا چا ہیے ۔
(ب)سو نے اور چا ندی کے بر تنوں میں خو ر دو نو ش کی شر عاً مما نعت ہے کیو ں کہ ان کے استعما ل میں تکبیر کا عمل دخل ہو تا ہے یہ کبرو نخوت خا لق کا ئنا ت کو پسند نہیں ہے اس لیے ان کا استعما ل نا جا ئز قرار دیا گیا ہے البتہ شکستہ بر تن کو چا ندی کے تا ر سے پیو ستہ کر کے استعما ل کر نے کی شر عاً اجا ز ت ہے کیو ں کہ اس میں کبر و غرور کو عمل دخل نہیں ہے حد یث میں ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مضا ر نا می لکڑی کا پیا لہ ٹو ٹ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ٹو ٹی جگہ پر چا ند ی کا تا ر لگو ا دیا تھا ۔(صحیح بخا ر ی : کتا ب الا شر بہ احا دیث نمبر 5638)
اس حدیث سے معلو م ہو ا کہ ضرورت کے پیش نظر ٹو ٹے بر تن کو چاندی کی تا ر سے جو ڑا جا سکتا ہے ۔
(ج ) غیر مسلم یہو د و نصا ر ی اکثر اوقا ت اپنے بر تنو ں میں خنزیر کا گوشت پکا تے ہیں اور ان میں شرا ب بھی پیتے ہیں جیسا کہ مسند امام احمد وغیرہ میں اس کی وءضا حت ہے اس بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بعض صحا بہ کرا م رضوان اللہ عنہم اجمعین کو ان کے بر تن استعما ل کر نے میں تر دو پیدا ہو ا تو انہو ں نے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریا فت کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا کہ ان کے بر تنو ں نہ کھا ؤ ہا ں اگر ان کے علا وہ کو ئی بر تن ملے تو پھر انہیں دھو کر استعما ل میں لا یا جا سکتا ہے ۔(صحیح بخا ری :کتا ب الذئح حدیث نمبر 5496)
اس سے معلو م ہو ا کہ غیر مسلم کے بر تنو ں میں خو ر دو نو ش سے اجتناب کر نا چا ہیے تا و قتیکہ ان کے استعما ل کر نے میں اضطرا ری حالت پیش نہ آئے مجبو ر ی کے وقت ان کے دھو نے پر اعتما د کیا جا ئے بلکہ خود انہیں دھو کر استعما ل کیا جا ئے ۔ (واللہ اعلم با لصوا ب )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب