السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
فیصل آباد سے قاری محمد حبیب اللہ بسمل خریدا ری نمبر 1448لکھتے ہیں کہ ہما ر ے ہا ں آج کل نئے گرو ہ نے جنم لیا ہے جو اپنے ہا ں ایک خو د سا ختہ خلیفہ سے بیعت کر نے کی دعو ت دیتے ہیں آپ سے استدعا ہے کہ خلیفہ بر حق کی علامتیں اور شنا خت سے آگا ہ فرمائیں نیز بتا ئیں کہ اس کا تعین کیو نکر ممکن ہو سکتا ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شرعی خلیفہ کے لیے مندرجہ ذیل علا متو ں کا ہو نا ضروری ہے ۔
(1)وہ قریشی ہو بشرطیکہ اخلا ص کے سا تھ اقا مت دین کے لیے سر گرم عمل ہو ۔
(2)جسما نی اور علمی طور پر انتہا ئی مضبو ط ہو ۔
(3)اللہ کی حدود کو عملاً نا فذ کر نے کی اپنے اندر ہمت رکھتا ہو ۔
(4) امر با لمعرو ف اور انہی عن المنکر کا فر یضہ ادا کر نے میں با ختیا ر ہو ۔
(5)امت مسلمہ نے اسے اپنے ہا ں شر ف قبو لیت سے نو از ا ہو یعنی وہ سا ختہ نہ ہو ۔ایسا نہیں کہ کسی غیر ملک میں بیٹھ کر وہ سیا سی پنا ہ لے لے اور وہا ں اپنی خلا فت کا دعو یٰ کر دے اور اپنے قریشی ہو نے کا اعلا ن کر کے دیگر مما لک میں حصول بیعت کے لیے اپنے نما ئند گا ن مقرر کر دے تا کہ بغا و ت کی فضا سا ز گا ر کی جا ئے اور اس کے مقرر کر دہ نمائندے شہرو ں اور دیہا تو ں میں پھیل جا ئیں اور خو د سا ختہ خلیفہ کی بیعت لیتے پھر یں ہما ر ے نز دیک یہ کھلی بغا و ت ہے جس کی شر یعت ہمیں اجا ز ت نہیں دیتی حکو مت وقت کو چا ہے کہ وہ ایسے لو گو ں کا سختی سے نو ٹس لے ایسا کر نا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منھج اور طریقہ کا ر کے خلا ف ہے ایسے پر فتن حا لا ت میں زند گی بسر کر نے کے لیے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیما ت سے را ہنما ئی ملتی ہے چنا نچہ خضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتے ہےں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" کہ ایسے حالا ت میں مسلما نو ں کی جما عت اور ان کے امام سے چمٹے رہنا چا ہیے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فر ما تے ہیں کہ اگر مسلما نو ں کی جما عت اور ان کا امام نہ ہو تو کیا کیا جا ئے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا کہ ایسے حا لا ت میں تمام فر قو ں سے الگ رہنا خو اہ تمہیں جنگل میں درختو ں کی جڑیں چبا کر ہی گز را اوقا ت کر نا پڑے تا آنکہ تمہیں اسی حا لت میں مو ت آجا ئے(صحیح بخاری : کتا ب النعتن)
حدیث میں ہے کہ جب عبد اللہ بن زیا د رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مروان بن حکم نے شا م میں حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکہ مکرمہ میں اور خو راج نے بصر ہ میں اپنی اپنی حکو متوں کا اعلا ن کیا تو ابو الحمہنا ل اپنے با پ کے ہمرا ہ حضرت ابو برز ہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پا س گئے میرے با پ نے ان سے عرض کیا اے ابو برزہ ! آپ نہیں دیکھتے کہ لو گ کس قسم کے اختلا ف میں الجھے ہو ئے ہیں ایسے حا لا ت میں ہمیں کیا کر نا چا ہیے ۔ آپ نے فر ما یا کہ میں قر یش کے لو گو ں سے نا را ض ہو ں اور میر ی نا را ضی اللہ کی رضا کے لیے ہے اور مجھے اس نا را ضی پر اللہ تعا لیٰ سے اجر ملنے کی امید ہے ۔عر ب کے لو گو ! تم جا نتے ہو کہ تمہا را پہلے کیا حا ل تھا تم سب گمرا ہی میں گر فتا تھے اللہ نے تمہیں دین اسلا م اور رسول اللہ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیما ت کے ذریعے اس بر ی حا لت سے نجا ت دی پھر تم مقا م عزت پر فا ئز ہو گئے آج تمہیں اس دنیا نے خرا ب کر دیا ہے یہ سب بز عم خو یش خلفا دنیا کے لیے آپس میں درست و گر یبا ن ہیں اور ایک دوسرے سے قتا ل کر رہے ہیں ۔(صحیح بخا ری : النغتن7112)
ان احا دیث سے معلو م ہو اکہ آج ہمیں کتا ب و سنت کے مطا بق زند گی بسر کر نا چا ہیے جب کبھی حا لا ت سا ز گا ر ہو جا ئیں کہ کتا ب و سنت کے علمبر دا ر با ہمی اتحا د و اتفا ق سے کسی با ختیا ر خلیفہ پر متفق ہو جا ئیں تو اس کی بیعت کے لیے تحر یک چلا نا منا سب اور با عث اجر و ثو اب لیکن کسی خو د سا ختہ خلیفہ جس کے متعلق ہمیں کو ئی علم نہیں اور نہ ہی کسی نے اسے دیکھا ہے اس کی خلا فت کے لیے بیعت لینا فضا سا ز گا ر کر نا اور تحر یک چلا نا حکو مت وقت کے خلا ف ایک کھلی بغا و ت ہے جس کی شر یعت ہمیں اجا ز ت نہیں دیتی ۔(واللہ اعلم بالصواب )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب