السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
دو بئی سے محمد زبیر سلفی سوال کر تے ہیں کہ اگر کو ئی شخص بیما ری یا کسی اور وجہ سے جمعہ کی نما ز با جما عت ادا نہ کر سکے تو اسے کو نسی نما ز پڑھنا ہو گی جمعہ کی دو رکعت یا ظہر کی چا ر رکعا ت ۔؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس سوال کا جوا ب پہلے بھی" اہل حدیث " میں لکھا جا چکا ہے اب قدرے تفصیل سے اس کا جو اب پیش خدمت ہے علما ئے امت کے درمیا ن اس مسئلہ کے متعلق کچھ اختلا ف ہے کہ جمعہ فو ت ہو جا نے پر دو رکعت پڑھنا ہیں یا چا ر رکعا ت ادا کر نا ہیں اس اختلا ف کی بنیا د یہ ہے کہ جمعہ بذا ت خو د اصل اور جمعہ اس کا بدل ہے جو حضرات جمعہ ہی کو اصل قرار دیتے ہیں ان کے نز دیک جمعہ فو ت ہو جا نے پر دو رکعت ہی ادا کرنا ہو گی اور جن حضرات کے نز دیک نما ز ظہر اصل ہے اور جمعہ اس کا بدل ہے ان کے نز دیک اگر جمعہ فو ت ہو جا ئے تو ظہر کی چا ر رکعات ادا کر نا ہو ں گی کیو ں کہ اگر بد ل نہیں مل سکا تو اصل کو عمل میں لا نا چاہیے ہما را رجحا ن بھی اسی طرف ہے کہ نماز ظہر اصل ہے اور جمعہ اس کا بد ل ہے اگر کو ئی جمعہ کی نما ز پڑھ سکے تو اسے نما ز ظہر ادا کرنا چا ہیے اس کے دلا ئل حسب ذیل ہیں ۔
(1)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحا بہ کرا م رضوان ا للہ عنہم اجمعین جمعہ کے دن دوران سفر نما ز ظہر ہی ادا کر تے تھے لیکن سفر کی وجہ سے ظہر کی چا ر رکعت ادا کر نیکی بجا ئے دو رکعت پڑھتے اگر جمعہ اصل ہو تا تو دورا ن سفر اس کا ضرور اہتما م کر تے ہما ر ے اس مو قف کی تا ئید ایک واقعہ سے بھی ہو تی ہے جو جمعہ فو ت ہو نے پر دو رکعت ادا کر نے وا لو ں کی طرف سے بطو ر دلیل بھی پیش کیا جا تا ہے واقعہ کی تفصیل کچھ یو ں ہے حضرت مو سیٰ بن سلمہ رحمۃ اللہ علیہ جو بصرہ کے رہنے والے ہیں حجرت ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کر تے ہیں کہ اگر وا دی بطحا میں مجھ سے جمعہ فو ت ہو جائے تو میں کتنی رکعت ادا کرو ں حضرت ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فر ما یا کہ دو رکعت ادا کرو ایسا کر نا ابو القا سم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ۔(ذکر اخبار اصفہا ن :2/200)
مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دورا ن سفر جمعہ کے دن بھی ظہر کی دو رکعت اد ا کر تے تھے اس بنا پر جمعہ فو ت ہو جا نے پر سفر میں دو رکعت ادا کر نا ہی سنت ہے ۔
(2)عورتو ں پر نما ز جمعہ فرض نہیں ہے اگر وہ جمعہ ادا کر نا چا ہیں تو اجاز ت ہے اگر جمعہ نہ ادا کر یں تو گھر میں نما ز ظہر ادا کر نا ہو گی اگر جمعہ اصل ہو تا تو انہیں گھر میں ہی دو رکعت ادا کر نے کا حکم ہو تا لیکن ایسا نہیں چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعو د رضی اللہ تعالیٰ عنہ عورتو ں کو مخا طب کر کے فرماتے ہیں :" کہ اگر تم امام کے ساتھ نما ز جمعہ ادا کرو تو تمہا رے لیے اس کے سا تھ (رکعت) نما ز ادا کر نا ہی کا فی ہے اور اگر تم نما ز پڑھنا چا ہو تو چا ر رکعت ادا کر نا ہو گی ۔
(مصنف ابن ابی شیبہ :2/110)
ان روایا ت سے بھی یہی معلو م ہو تا ہے کہ جمعہ کے دن اصل نما ز ظہر ہے اور جمعہ اس کا بدل ہے اگر بدل رہ جا ئے تو اصل ادا کر نا چا ہیے بعض صحا بہ کرا م رضوان ا للہ عنہم اجمعین سے اس کے متعلق صریح نصو ص بھی منقو ل ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہیں ۔
(1)حضرت عبد اللہ بن مسعو د رضی اللہ تعالیٰ عنہ فر ما تے ہیں :" کہ جو آد می جمعہ پالے اس کے لیے دو رکعت ہیں اور جو اس دن جمعہ سے رہ جا ئے اسے چا ہیے کہ چا ر رکعت ادا کر لے ۔(مصنف ابن ابی شیبہ 2/129)
(2) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فر ما تے ہیں :" کہ جب تجھے امام کے ساتھ جمعہ کی ایک رکعت مل جا ئے تو دوسری رکعت اس کے سا تھ ملا لی جا ئے اور اگر تو بحا لت تشہد پڑھے تو چا ر رکعا ت ادا کر نا ہو ں گی ۔(بیہقی :3/204)
(3)حضرت عبد الر حمن بن ابی ذو یب رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں :" کہ میں جمعہ کے دن حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمرا ہ با ہر نکلا تو آپ نے جمعہ کے وقت چا ر رکعت ادا کیں ۔(مصنف ابن ابی شیبہ :2/105)
ان تما م روایا ت کا حا صل یہ ہے ۔ کہ اگر کسی کا جمعہ رہ جا ئے تو جن لوگو ں پر جمعہ فر ض نہیں ہے مثلا ً:مسا فر عورت وغیرہ تو انہیں نماز ظہر ادا کر نا ہو گی چنا نچہ علا مہ صنعا نی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :" بلکہ ظۃر اصل ہے جو شب معرا ج میں فرض ہو ئی تھی اور جمعہ کی فرضیت اس کے بعد ہو ئی ہے اگر جمعہ فو ت ہو جا ئے تو نما ز ظہر کی ادا ئیگی ضروری ہے اس پر اجماع ہے کیو ں کہ جمعہ نما ز ظہر کا بد ل ہے ۔( سبل اسلام :2/53)
بعض دیگر روایا ت بھی اس مو قف کے لیے بطو ر دلیل پیش کی جا سکتی ہیں لیکن خو ف طو ا لت کے پیش نظر ہم اس اکتفا کر تے ہیں وا ضح رہے کہ علا مہ البا نی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب