السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کرا چی سے رب نو از سوال کر تے ہیں کہ جمعہ کے دن دورا ن خطبہ جھو لی اٹھا کر مسجد کی ضروریا ت کے لیے چندہ جمع کر نا شر عاً کیسا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
خطبہ جمعہ بھی نما ز کی طرح ہے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا د ہے کہ دو را ن خطبہ اگر کسی نے شو ر کر نے والے کو خا مو ش رہنے کا کہا خا موشی کی تلقین کر نے والے نے خو د ایک لغو اور بے ہو د ہ فعل کا ارتکا ب کیا ہے اس سے اندا ز ہ لگا یا جا سکتا ہے کہ جب خا مو ش کرا نے والے کے متعلق اس قدر شدید و عید ہے تو مصرو ف گفتگو رہنے والا کس قدر سنگین جر م کا مر تکب ہو رہا ہے اس بنا پر دورا ن خطبہ سا معین اور حاضرین کو صر ف خطبہ کی طرف تو جہ رکھنا چا ہیے چند ہ وغیرہ اکٹھا کر نا سا معین کی تو جہ کو منتشر کر نے کا ایک ذریعہ ہے اس لیے یہ حر کت بھی دورا ن خطبہ نہیں کر نا چا ہیے البتہ اگر کو ئی ہنگا می ضرورت آپڑی ہے تو امام کو چا ہیے کہ وہ خو د اس کا اعلا ن کر ے اور حا ضر ین کو تر غیب دے لیکن اس کے لیے بھی حا ضرین کو نا م بنا م آواز دینے پھر سا معین کی گرد نیں پھلانگ کر فو راً چند ہ دینے کی ضرورت نہیں بلکہ نماز سے فراغت کے بعد اطمینان اور سکو ن سے حسب استطا عت اس کا ر خیر میں حصہ ڈا لا جا سکتا ہے صورت مسئولہ میں جس طرح سوا ل اٹھا یا گیا ہے اگر واقعی چندہ جمع کر نے کی یہی صورت ہے تو ایسا کر نا مسجد کے تقد س اور احترا م دو قار کے بہت منا فی ہے کہ انسا ن جھو لی پھیلا کر لو گو ں کے سا منے آئے اور مسجد کے لیے چند جمع کر ے اہل مسجد کو چا ہیے کہ مسجد کی ضروریا ت کو پو را کر نے کے لیے کو ئی اور اور با عز ت طریقہ اپنا ئیں یا درہے کہ امام کے منبر پر کھڑا ہو نے سے لے کر نماز کے لیے کھڑا ہو نے تک سب خطبہ ہی شما ر ہو تا ہے یہ وضا حت اس لیے ضروری ہے کہ بعض مقا مات پر دو نو ں خطبو ں کے در میا ن وقفہ لمبا کر کے یہ فریضہ سر انجا م دیا جاتا ہے لہذا اس سے بھی اجتنا ب کر نا چا ہیے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب