سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(375) عدالت کا یک طرفہ کاروائی کرکے عورت کے حق میں فیصلہ کرنا

  • 11637
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1117

سوال

(375) عدالت کا یک طرفہ کاروائی کرکے عورت کے حق میں فیصلہ کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

احمد پورشرقیہ سے زوالفقار سوال کرتے ہیں۔ کہ ایک عورت کا کسی شخص سے نکاح ہوا کچھ مدت کےبعد عورت کو پتہ چلا کہ اس کا خاوند ناکارہ جوئے باز اور فحش کار ہے اور بیوی کے جملہ حقوق پورے کرنے سے بھی قاصر ہے۔عورت نے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے غیر شرعی دھندا شروع کردیا۔جس کی بنا پر بیوی اور خاوند کا ہمیشہ جھگڑا رہنے لگا نوبت باین جارسید کہ ایک دن مذکورہ خاوند نے اپنی بیوی کو مارپیٹ کراپنےگھر سے نکال دیا چنانچہ وہ اپنے والدین کے ہاں چلی گئی اور والدین نے صلح کی کوشش کی لیکن ناکام رہے بالاخرا س کی بیوی نے اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کےلیے عدالتی چارہ جوئی کی عدالت نے یکطرفہ کاروائی کرتے ہوئے عورت کے حق میں تنسیخ نکاح کا فیصلہ دے دیا اب دریافت طلب امریہ ہے کہ وہ عورت عدالتی تنسیخ نکاح کے بعد آگے کسی دوسرے شخص سے نکاح کرسکتی ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال واضح ہو کہ آئمہ کرام کا اس کے متعلق اختلاف ہے۔بعض کا خیال ہے کہ عدالت کافیصلہ نافذ العمل ہے۔ جبکہ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ عدالت مصالحت تو کراسکتی ہے لیکن طلاق چونکہ خاوند کاحق ہے۔اس لئے عدالت کو یہ اختیار نہیں کہ وہ ان کے مابین  تنسیخ نکاح کا فیصلہ کرے ہماری ناقص رائے کے مطابق پہلے حضرات کاموقف صحیح معلوم ہوتا ہے کیوں کہ شریعت نے خاوند کوعورت کے متعلق معاشرت بالمعروف کا پابند کیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:تم ان سے دستور کے مطابق زندگی بسر کرو۔''(4/النساء :19)

اخراجات کی ادائیگی اور دیگر حقوق کی بجاآوری بھی خاوند کے زمہ ہے۔جو صورت مسئولہ میں وہ پوری نہیں کررہا اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو  تکلیف دینے کی غرض سے گھروں میں روکے رکھنے سے منع فرمایا ہے۔فرمان الٰہی ہے:'' تم انہیں تکلیف دینے کے لئے مت روکو کہ تم زیادتی کاارتکاب کرو۔''(2/البقرہ :231)

ان حالات کے پیش نظر عورت اگر مجبور ہوکر عدالت کادروازہ کھٹکٹاتی ہے۔ تو یہ اس کا حق ہے خاوند کو چاہیے تھا کہ وہ عدالت میں حاضر ہوکر اپنی صفائی پیش کرتا تاکہ عدالت کو یکطرفہ کاروائی کرنے کاموقع نہ ملتا اب دو ہی صورتیں ہیں:

1۔اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کو صحیح سمجھتے ہوئے وہ عدالت میں حاضر نہیں ہوا۔

2۔وہ اپنی بیوی کو اپنے گھر بسانا نہیں چاہتا ۔

دونوں صورتوں میں عدالت کافیصلہ صحیح اور نافذ العمل ہے۔عدت گزارنے کے بعد عورت کسی بھی دوسرے آدمی سے نکاح کر سکتی ہے۔یہ اس کاحق ہے۔ جسے شریعت کسی بھی صورت میں پامال نہیں کرنا چاہتی۔مسئلہ کی وضاحت کےساتھ ہم اس تلخ حقیقت کا اظہار کئے بغیر بھی نہیں رہ سکتے۔کہ بدقسمتی سے ہمار اشریعت سے  تعلق صرف ذاتی مفادات کی حد تک ہے۔چنانچہ صورت مسئولہ میں مذکورہ عورت نے اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے جو طریقہ کار اپنایا وہ انتہائی قابل نفریں اور باعث لعنت ہے۔ایک غیرت مندآدمی اس بے حیائی کو اپنے  گھر کب گوارا کرسکتا ہے۔ ہمارے نزدیک خاوند کازدو کوب کرنے کے بعد اسے گھر سے نکال دینے کا یہ اقدام اس کی غیر ت کاتقاضا تھا۔ چنانچہ اس نے  اپنے آپ پر دیوث ہونے کا دھبہ نہیں لگنے دیا جب سر پر مصیبت پڑی ہے تو شریعت کی طرف توجہ کی گئی ہے حق تو یہ تھاکہ جب خاوند اخراجات پورے نہیں کرتا تھا تو اسی وقت شریعت کی طرف رجوع کیاجاتا یا عدالتی چارہ جوئی کے زریعے اپنا حق لیاجاتا لیکن شریعت کو نظر انداز کرکے بدکاری اور بے حیائی کاراستہ اختیار کیاگیا اس طرح حالات مذید خراب ہوگئے۔اب اس عورت کو سوچنا چاہیے کہ قرآن مجید کی درج زیل آیت کہیں اس پر تو نہیں چسپاں ہورہی:'' بدکار عورتیں بدکارمردوں کے لئے اور فحش کار  مرد فحش کار عورتوں کے لئے  ہیں۔''(24/النور:26)

عورت کو چاہیے کہ وہ اللہ کے حضور اپنے گناہوں کی معافی مانگے اور آئندہ ایسا اقدام نہ کرنے کاعزم کرے۔ جس سے اسکی عزت وناموس مجروح ہوتی ہو تاکہ وہ کسی شریف آدمی کے لئے مزید خرابی اور رسوائی کا باعث نہ ہومختصر یہ ہے کہ عدالتی فیصلہ کے بعد وہ عدت گزارنے کی پابند ہے اس کے بعد وہ نکاح ثانی میں آزاد ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:386

تبصرے