السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ملتان سے عبد الکریم آصف سوال کرتے ہیں۔ کہ ہمارے پڑوس میں ایک مدرسہ ہے۔ وہاں بکثرت گوشت آتا ہے۔ اہل مدرسہ ضرورت سے زائد گوشت کو بازار سے کم قیمت پر فروخت کردیتے ہیں جب کہ وہ گوشت صدقہ وخیرات کے طور پر مدرسہ میں لایاجاتا ہے کیا اس طرح ضرورت سے فاضل گوشت کی خرید وفروخت جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مخیر حضرات جو مدرسہ کے لئے اشیائے خوردنی دیتے ہیں ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ علم دین کا حاصل کرنے والے اسے استعمال کریں۔اورخود کھائیں۔ان کی نیت اور مقصد کے پیش نظر فاضل گوشت کی خریدوفروخت سے پرہیز کرنا چاہیے گوشت وغیرہ کسی مدرسہ کی ضرورت سے زائد ہے تو اہل مدرسہ کو فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی دوسرے مدرسہ کودے دینا چاہیے یا اہل مدرسہ گوشت دینے والے کو کہہ دیں کہ ہمیں اب اس کی ضرورت نہیں۔آپ ا س کے متبادل اور چیز دے دیں یا آپ او ر مدرسہ کو دے دیں گوشت کو فروخت کرنے سے عامۃ الناس میں علماء کے متعلق یہ بدگمانی پیدا ہوسکتی ہے۔ کہ یہ لوگ حق داروں کو کھلانے کی بجائے اشیائے خوردنی آگے بیچ دیتے ہیں۔پھر ایسی باتوں کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف نفرت وحقارت کے جذبات کو ابھارا جاسکتا ہے۔اس کے علاوہ ضرورت سے زائد گوشت فروخت کرنے سے دینے والے کی نیت پوری نہیں ہوتی ان اسباب کے پیش نظر اس کی خریدوفروخت سے اجتناب کرنا بہتر ہے بلکہ کسی دوسرے مدرسے کو دے دینا بہتر ہے البتہ اس بات کی وضاحت کردینا ضروری ہے۔ کہ حق دار کے پاس پہنچ جانے کے بعد صدقہ خیرات کی حیثیت ختم ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بریرۃ رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کے پاس آنے والے صدقہ کا گوشت تناول کرلیتے تھے۔اس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:'' کہ یہ گوشت بریرۃ رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کے لئے صدقہ ہے اور ہمارے لئے ہدیہ ہے۔''(صحیح بخاری :زکواۃ1493)
اس پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیاہے۔''جب صدقہ کی حیثیت بدل جائے''(تو وہ صدقہ نہیں رہتا)
اس لئے عشر وغیرہ کی گندم جو مدرسہ کی ضرورت سے زائد ہو اسے آگے فروخت کرنے میں چنداں حرج نہیں ہے کیوں کہ مدرسہ میں پہنچنے کے بعد اس کی صدقہ کی حیثیت وغیرہ ختم ہوچکی ہے۔تاہم گوشت اور سبزی وغیرہ کو فروخت کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے(واللہ اعلم)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب