سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(335) نمازِ کسوف و خسوف کے احکام کیا ہیں؟

  • 1136
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 1765

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز کسوف وخسوف کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

جمہور اہل علم کے نزدیک نماز کسوف وخسوف سنت مؤکدہ ہے، واجب نہیں ہے۔ بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کا حکم دیا ہے۔ آپ نے گھبراہٹ وبے چینی کے ساتھ اس نماز کو ادا فرمایا اور دیگر نمازوں کے برعکس اس نماز کو بہت لمبا ادا فرمایا ہے اور دوسری نمازوں کے مقابلہ میں اسیبڑی اہمیت وعظمت کے ساتھ ادافرمایاہے ۔ بعض اہل علم نے اسے واجب عین یا واجب کفایہ قرار دیا ہے اور انہوں نے استدلال یہ کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس نماز کا حکم دیا ہے اور امر و جوب کے لیے ہوتا ہے، نیزاس معاملہ میں ایسے قرائن وشواہد بھی موجود ہیں جو اس نماز کی اہمیت کی دلیل ہیں اور اس لیے بھی کہ کسوف وخسوف کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی ایسی سزا کی دھمکی کے طورپر وقوع ہوتا ہے جس کے اسباب موجود ہوتے ہیں، لہٰذا بندوں پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس سزا سے ڈرتے اورخوف کھاتے ہوئے الحاح وزاری کریں جس کے اسباب موجود ہیں اور جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈرا رہا ہے۔

بلا شبہ نقلی اور عقلی دلیل کے اعتبار سے یہ قول قوی ہے، لہٰذا کم سے کم یہ نماز فرض کفایہ تو ضرور ہے، ہماری اس بارے میں یہی رائے ہے۔ جمہور کے پاس اس کے عدم وجوب کی کوئی صریح دلیل نہیں ہے، سوائے اس کے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے جب ایک شخص نے سوال کیا کہ کیا مجھ پر نماز پنجگانہ کے سوا اور بھی کوئی نماز فرض ہے؟ تو آپ نے فرمایا تھا کہ نہیں الایہ کہ تم نقل نماز ادا کرو۔

لیکن یہ فرمان ان پانچ نمازوں کے سوا دیگر کے وجوب کی نفی نہیں کرتا، خصوصاً جب کہ اس کے وجوب کا کوئی سبب موجود ہو۔ آپ کے اس فرمان، کہ ان کے سوا اور کوئی نماز فرض نہیں، سے مراد یہ ہے کہ ان فرض نمازوں کے سوا جو دن رات میں پانچ بار پڑھی جاتی ہیں اور کوئی نماز فرض نہیں ہے، جہاں اس نماز کا معاملہ ہے جو کسی سبب سے متعلق خلاصہ یہ کہ ہماری رائے میں نماز کسوف وخسوف واجب عین یا واجب کفایہ ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ329

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ