السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
دعائے تعزیت میں ہاتھ اٹھانے کاکیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ولا حول ولا قوة الا باللہ ۔
سنت نبویہ میں تعزیت کی بڑی فضیلت ہے اسی طرح اس میں دعا بھی ثابت ہے۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہ پر داخل ہوئے ‘ان کی آنکھیں کھلی رہ گیئں تھیں آپ نے انہیں بند کیا پھر فرمایا:جب روح قبض کر کے لیجائی جاتی ہے تو آنکھیں اسے دیکھتی ہیں اس پر ان کے گھر والوں کے لوگوں نے دھاڑیں مار کر رونا شروع کیا‘تو آپ نے فرمایا:’’اپنے لیے بھلائی ہی کی دعا مانگو‘فرشتے تمہارے کہنے پر آمین کہتے ہیں ‘‘ پھر فرمایا:
«اللهُمَّ اغْفِرْ لِأَبِي سَلَمَةَ وَارْفَعْ دَرَجَتَهُ فِي الْمَهْدِيِّينَ، وَاخْلُفْهُ فِي عَقِبِهِ فِي الْغَابِرِينَ، وَاغْفِرْ لَنَا وَلَهُ يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ، وَافْسَحْ لَهُ فِي قَبْرِهِ، وَنَوِّرْ لَهُ فِيهِ».
(اے اللہ !ابو سلمہ کی مغفرت فرما‘ہدایت یافتہ گان میں اور ان کے درجے بلند فرما۔اور اس کے پیچھے پس مندگان میں اس کا خلیفہ بن‘اے رب العالمین!ہماری اور اسکی مغفرت فرما۔اور اس کی قبر کو فراخ کر دے اور اسے منور فرما)۔ صحیح مسلم:(1/311) ‘اور مشكوٰة:(1/141)
لیکن اس دعا میں ہاتھوں کا اٹھانا‘اس کے لیے اکٹھا ہونا اور اس کا التزام اور یہ دعا منٹ سیکنڈ کی ہوتی ہے تو اس کے بدعت ہونے میں کوئی شک نہیں نبیصلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے اسکا کوئی ثبوت نہیں اور ہر زمانے میں بکثرت اموات ہونے کے باوجود انہوں نے نہیں کیا۔جب ایک چیز کثیر الوقوع ہو اور نبیصلی اللہ علیہ وسلم اپنے قول و عمل سے بیان نہ فرمائیں تو ایسے عمل کو عبادات اور اطاعت بنانا بدعت ہے۔دیکھیں فتاوٰی البرکانیہ ص :(346)۔
اور جو حدیث سے استدلال کرتا ہے جو بخاري(2/619)‘رقم:(4068) میں برواریت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ہے کہ انہیں ابو عامر نے وصیت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے مغفرت کی دعا فرمائیں تو میں نے اپنا قصہ بھی سنایا اور ابو عامر کی بات بھی بتائی کہ اس نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی مغفرت کے لیے دعا فرمائیں‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوا کر وضوء کیا اور ہاتھ اٹھا کر فرمایا:((اے اللہ !اپنے بندے ابو عامر کی مغفرت فرما۔اور میں نے آپ کے بغلوں کی سفیدی دیکھی پھر فرمایا اے اللہ!اسے اپنی مخلوق میں سے بہت سارے لوگوں پر فائق کر دے۔پھر میں نے کہا میرے لیے بھی استغفار فرما دیں‘تو آپ نے فرمایا:اے اللہ عبد اللہ بن قیس کا گناہ معاف فرما دے اور اسے قیامت میں عزت والی جگہ میں داخلہ نصیب فرما!))۔
ابو بردہ کہتے ہیں ایک دعا ابو عامر کے لیے اور دوسری ابو موسیٰ کے لیے۔تو اس حدیث سے ہاتھ اٹھانے پر استدلال بعید کا استدلال ہے۔ یہ تو تعزیت میں نہیں بلکہ یہ دعا تو وصیت پوری کرنے کے لیے ہے۔هذا وباللہ التوفیق
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب