السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کوریا سے محمد طاہر لکھتے ہیں کہ موجود حالت میں قنوت نازلہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آیت کریمہ
﴿ لَيسَ لَكَ مِنَ الأَمرِ شَىءٌ أَو يَتوبَ عَلَيهِم أَو يُعَذِّبَهُم فَإِنَّهُم ظـٰلِمونَ ﴿١٢٨﴾... سورة آل عمران
کے نزول کے نزول کے بعد قنوت نازلہ سے رگ گئے تھے۔کیا جواز کی صورت میں ہرنماز میں اسے پڑھا جاسکتا ہے انڈیا۔امریکہ اور بش وغیرہ کا نام لے کر قنوت نازلہ پڑھنا کیسا ہے؟نیز اس کے ساتھ دیگر غیر متعلقہ ادعیہ شامل کرکے اسے چالیس پچاس منٹ کی قنوت نازلہ دینا درست ہے؟نیز ہم جمعہ کے لئے تقریباً چالیس میل کا فاصلہ طے کرکے جاتے ہیں تو کیا وہاں قصر نماز پڑھی جاسکتی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہاں سوال در سوال سے کئی ایک سوالات بن گئے ہیں، ترتیب وار جوابات حسب ذیل ہیں:
1۔اس میں کوئی شک نہیں کہ امت مسلمہ آج شدید بحرانی کیفیت سے گزر رہی ہے۔ اس میں اپنوں کی بے وفائی مفاد پرستی اور مصلحت کوبڑا دخل ہے۔ دراصل اغیار کی وحشت وبربریت کو نام نہاد مسلمانوں کی ہوس اقتدار نے حوصلہ دیاہے۔ ایسے حالات میں ہم کمزور ناتواں لوگ اللہ تعالیٰ سے دعا وپکار کے علاوہ اور کیا کرسکتے ہیں۔ایسے سنگین اور ہنگامی حالات میں دوران نماز رکوع کے بعد باآواز بلند امام کا دعا کرنا اور مقتدیوں کا آمین کہنا قنوت نازلہ کہلاتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا کرنا ثابت ہے۔ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی قوم کے لئے دعا بد دعا کرتے تو رکوع کے بعد قنوت فرماتے۔(صحیح بخاری) اس لئے ائمہ مساجد کا یہ مستحسن اقدام ہے کہ انہوں نے ایسے کٹھن حالات میں قنوت نازلہ کا اہتمام کیا ہے ۔سوال میں جو لکھا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک آیت کریمہ کے نزول کے بعد قنوت نازلہ سے رک گئے تھے۔ اس سے اس کا مطلق طور پر نسخ مراد لینا صحیح نہیں ہے۔چنانچہ محدث ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس موضوع پر اپنی صحیح میں طویل گفتگو کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قنوت نازلہ میں مخصوص کتنی لعنت فرماتے تھے، آیت کریمہ میں آپ کو اس لعنت کرنے سے روکا گیا تھا کہ آپ اس معاملہ میں بے اختیار ہیں اللہ کا معاملہ ہے جسے چاہے توبہ کی توفیق عنایت فرمادے اور جسے چاہے عذاب دے کیوں کہ یہ ظلم پیشہ ہیں، چنانچہ جن کے متعلق آپ لعنت کرتے تھے وہ مسلمان ہوگئے تھے۔
بعض اوقات ہنگامی حالات ختم ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قنوت کا اہتمام ترک کردیا تھا۔کیونکہ جن مسلمانوں کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرماتے تھے وہ کافروں کی قید وبند سے رہائی پا کر مدینہ پہنچ چکے تھے، اس سے بھی بعض لوگوں کو دھوکا ہوا ہے کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منسوخ ہونے کی وجہ سے قنوت ترک کردی تھی، حالانکہ ایسا نہیں تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس قنوت کو بیان کرتے ہیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہنگامی حالات میں قنوت کا اہتمام کرتے تھے، جیسا کہ سیدنا ابو ہریرۃ ،سیدنا انس ، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔لہذا اسے علی الاطلاق منسوخ خیال کرکے ترک کردینا صحیح نہیں ہے۔
2۔دعا قنوت نازلہ پانچوں نمازوں میں کی جاسکتی ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہینہ بھر میں ظہر عصر مغرب عشاء اور فجر یعنی تمام نمازوں میں اہتمام کے ساتھ مسلسل قنوت نازلہ فرمائی۔(ابوداؤد کتاب الصلوۃ ،باب القنوت فی الصلوۃ)
محدثین کرام نے اپنی کتب حدیث میں ہنگامی حالات کے پیش نظر پانچوں نمازوں میں قنوت نازلہ کااہتمام کرنے کے لئے باقاعدہ باب قائم کیے ہیں۔ چنانچہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح مسلم میں ایک باب یوں قائم کیا:''باب استحباب القنوت في جميع الصلوات ’’تمام نمازوں میں قنوت کا استحباب۔''
واضح رہے کہ قنوت نازلہ رکوع کے بعد بآوازبلند کرناچاہیے اور مقتدی حضرات کوساتھ ساتھ دعائیں پڑھنے کی بجائے صرف آمین کہنا چاہیے،جیسا کہ مسند امام احمد، صحیح ابن خزیمہ اور مستدرک حاکم میں اس کی وضاحت موجود ہے۔
3۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن ادعیہ کا اہتمام کیا ہے،وہ ضرور پڑھی جائیں۔ ان کے علاوہ ہر وہ دعا بھی پڑھی جاسکتی ہے جس کا ہنگامی حالات سے تعلق ہو، لادین حملہ آور امریکہ بھارت اور روس وغیرہ کا نام بھی لیا جاسکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ ر عل ،مضراور ذکوان کا نام لے کر ان کے لئے بددعا فرمائی تھی۔پھر ان سے نبرد آزما ہونے والے مجاہدین کا نام لے کر ان کی فتح ونصرت کےلئے دعا کی جاسکتی ہے۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیاش بن ربیعہ، سلمہ بن ہشام اور ولید بن ولید کا نام لے کر ان کے لئے دعائیں فرمائی تھیں۔(صحیح بخاری)
4۔ہنگامی حالات سے غیر متعلق ادعیہ کا قنوت نازلہ میں پڑھنا درست نہیں ہے، ائمہ مساجد کو چاہیے کہ وہ مقتدی حضرات کا خیال رکھیں۔بے جا طوالت وتکرار سے اجتناب کریں۔ البتہ خشوع خضوع چیزے دیگر است، اسے ہر حال میں برقرار رہنا چاہیے۔جب بھی ہنگامی حالات ختم ہوجائیں تو قنوت نازلہ کو موقوف کردینا بھی مسنون ہے۔چنانچہ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے اہتمام سے ان ناتواں اور کمزور مسلمانوں کی نجات کے لئے دعا فرماتے تھے جو کفار کے ہاں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرتے تھے۔پھر آپ نے یہ سلسلہ بند کردیا تو عرض کیاگیا کہ اب آپ دعا کیوں نہیں کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' تم دیکھتے نہیں ہو کہ وہ کفار کی قید سے رہائی پا کر مدینہ آگئے ہیں۔'' (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ایک باب یوں قائم کیاہے:''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ دعائے قنوت نہیں فرماتے تھے بلکہ جب کسی کے لئے دعا یا بدعاکرنا مقصود ہوتی تو اس کا اہتمام فرماتے اور جب حالات سازگارہوتے تو قنوت کو موقوف کردیتے۔
5۔اگر کوئی نو میل یا اس سے زیادہ مسافت پرجمعہ پڑھنے کے لئے جاتا ہے، اگر وہاں عصر کی نماز کا وقت ہوجائے تو قصر کرکے پڑھنا چاہیے اسی طرح دوران سفر بھی قصر پڑھی جاسکتی ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب